Khatam e Nabuwat

مفتی غلام دستگیر ہاشمی دائم الحضوری قریشی صدیقی نقشبندی حنفی قصوری

حضرت علامہ مولانا مفتی غلام دستگیر ہاشمی قریشی صدیقی نقشبندی حنفی قصوری محلہ چلہ بیبیاں اندرون موچی گیٹ لاہور میں پیدا ہوئے۔والد کا اسم گرامی مولانا حسن بخش صدیقی تھا۔ آپ کے ایک بڑے بھائی مولانا محمد بخش مسجد "ملا مجید" لاہور میں ایک عرصہ تک خطابت اور تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری خلیفہ شاه غلام علی مجد دی دہلوی کی ہمشیرہ تھیں۔ اس طرح مولانا قصوری کو حضرت غلام محی الدین قصوری کا شاگرد، خواہر زاده، داماد، مرید با صفا اور خلیفہ ہونے کا شرف حاصل تھا۔

جب مولا نا قصوری سن شعور کو پہنچے تو حضرت مخدوم غلام مرتضیٰ قصوری کی قائم کردہ روحانی درس گاہ اور علمی مکتب مغربی پاکستان کے اولیاء وعلماء کی روحانی اور علمی تربیت گاہ کی حیثیت سے مرجع خلائق بن چکا تھا۔ اور اس وقت مولا نا غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری کے فیضان کا شہرہ اطراف واکناف پاک وہند تک پھیل چکا تھا، ترجمان حقیقت سید وارث شاہ اور سید بلھے شاہ جیسے نامور صوفیاء اس درس گاہ کے فیضان سے مالا مال ہو کر آسمان شہرت پر آفتاب وماہتاب بن کر چمکے تھے۔ ان بزرگان دین کی ضیاء پاشیوں سے قلوب واذہان کے تاریک خانے بقعہ نور بن چکے تھے۔ حضرت مولانا غلام مرتضیٰ بیر بلوی اور حضرت غلام نبی اللہ شریف ان دنوں حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری کی شاگردی میں روحانی دولت سے دامن مراد بھرنے میں مصروف تھے۔ مولانا قصوری کو اس درسگاہ کی کشش نے لاہور سے دعوت تربیت دی۔ آپ نے وقت کے اس جلیل القدر استاد کے سامنے زانوئے ادب طے کیا جس کے کمالات کا ایک کرشمہ یہ بھی تھا۔

ستاره می شکنند آفتاب می سازند

آپ نے منقولات ومعقولات میں کمال حاصل کیا۔ زمانہ طالبعلمی میں اپنی ذہانت اور محنت کی بدولت اپنے اساتذہ سے خراج تحسین حاصل کیا۔ آپ ابتدا ہی سے فکری اور نظریاتی مباحث میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔ آپ اس چیز کو اچھی طرح محسوس کرتے تھے کہ درس گاہوں کے باہر کی دنیا فکر ونظر کے اختلافات میں کھو گئی ہے اور ملک کی سیاست پر انگریز قابض ہو چکا ہے جس نے مسلمانوں کی وحدت فکر کو پارہ پارہ کرنے کے لئے ہزاروں اعتقادی فتنوں کو بیدار کر دیا تھا۔ آپ کے استاد حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری نے مستقبل کے ایسے ہی اعتقادی فتنوں کے سد باب کے لئے اپنے لائق اور ذہین شاگرد کو خاص انداز میں تربیت دے کر تیار کیا۔

اہل الله سے عقیدت:

 مولانا قصوری اپنی بے پناہ مصروفیتوں کے باوجود اہل اللہ سے بڑی عقیدت کا مظاہرہ کیا کرتے تھے جہاں کوئی صاحب نظر دیکھا پا برہنہ پہنچے اور زانوئے ادب طے کیا۔ حضرت مخدوم علی الہجویری داتا گنج بخش ، بابا فرید شکر گنج پاک پٹن ﷫، دربار عالیہ چاچڑاں شریف، اوچ شریف اور ملک کے دوسرے مزارات پر آپ اہتمام سے حاضری دیتے۔ آپ نے اپنی کتاب "تحفہ دستگیریہ" کے صفحہ نمبر ۱۳۳ پر خواجہ فرید شکر گنج کے عرس پاک پر زائرین کے بے پناہ ہجوم کا منظر یوں کھینچا ہے:

فقیر مزار پر انوار حضرت شیخ فرید شکر گنج پاک پٹن شریف گیا۔ وہاں حضرت مولانا مولوی دادار بخش مرحوم مجھے ایک بلند مقام پر لے گئے، جہاں سے زائرین کا ہجوم صاف دکھائی دیتا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ ہزاروں لوگ صف بستہ رواں دواں بہشتی دروازے کو جارہے ہیں اور کئی لوگ ان زائرین کے سر پر پاؤں رکھ کر بڑی تیزی سے دروازے کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ دروازے کے قریب جا کر وہ انسانوں کے جم غفیر میں غوطہ لگاتے اور دروازے سے گزرتے ہیں۔ جن لوگوں کے سر اور کندھوں پر سے یہ لوگ گزر رہے تھے وہ نہ تو شکایت کرتے اور نہ ہی کسی تکلیف کا اظہار کرتے۔ ان محبت کیش عوام کی عقیدت ومحبت کی محویت کا یہ منظر میرے لئے حیران کن تھا۔ اور جن بزرگان دین کی کرامات کا میں علمی طور پر قائل تھا اپنی آنکھوں سے دیکھ کر یقین کے رتبہ کو پہنچا۔1

از کرامت خار گلشن مے شود

دیدۂ بے نور روشن مے شود

آپ نے قرآن پاک کی تفاسیر اور احادیث کی تشریحات کا دقت نظر سے مطالعہ کیا۔ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی اعتقادی نشوونما کا کام کرنے لگے۔ انگریزی حکومت نے اسلامی معاشرے کو مسموم کرنے کے لئے کئی قسم کے اعتقادی زہر پھیلا دیے۔ بد اعتقاد علماء کی پیٹھ ٹھونکی جاتی، فتنہ پرور عناصر کو فتنہ سامانیوں کی پوری مراعات بہم پہنچائی جاتیں، ان نظریات کو خاص طور پر پھیلایا جاتا جس سے ملت اسلامیہ کی وحدت فکر کو پارہ پارہ کیا جاسکتا تھا، عوامی ذہن کو شکوک وشبہات کی نذر کر دیا جاتا۔ اس وقت کی معاشرتی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ مرزائیت، وہابیت، چکڑالویت، نیچریت اور پھر دیو بندیت جیسے محسوسہ اور غیر محسوسہ فرقے رینگتے ہوئے آگے بڑھے اور حشرات الارض کی طرح اسلامی زندگی کی تمام راہوں کو متعفن کرنے میں مصروف ہو گئے۔ ہر مسجد، ہر مجلس، ہر جلسہ گاہ، ہر درسگاہ غرضیکہ ہر گھر ان فتنوں کی آماجگاہ بنا دیا گیا۔ پھر لطف کی بات یہ ہے کہ ان فرقوں کے داعیان اپنے آپ کو اسلام اور دین کا اولین "خادم" اور "حق پرست" کہتے نہ تھکتے۔

ان نا مساعد حالات میں مولانا قصوری اللہ کا نام لے کر میدان عمل میں آئے اور ان طوفانوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ لاہور کی علمی دنیا آپ کی ہمت مردانہ اور فاتحانہ انداز تکلم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ ہند کے مشاہیر نے آپ کی خدمات کا اعتراف کیا۔ عرب وعجم کے دینی حلقوں نے آپ کی علمی اور اعتقادی خدمات کو بڑا سراہا۔ آپ نے وقت کے اس چیلنج کا نہایت پامردی سے مقابلہ کیا۔ برصغیر پاک وہند کے ہر شہر، ہر قصبہ ،ہر میدان اور ہر جلسہ میں پہنچے اور بداعتقاد علماء کے کھوکھلے دعوؤں کے تارو پود بکھیر دیے۔ آپ کے زور استدلال اور انداز بیان کے سامنے ان فتنہ پردازوں کا پندار ٹوٹ جاتا اور اکثر میدان چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرتے۔ مولانا قصوری تمام زندگی علمی وتحریری میدان میں تحفظ دین کے لئے مصروف جہد رہے اور یوں سنیوں کا یہ بطل عظیم ۱۸۹۷ء، ۱۳۱۵ھ میں واصل بحق ہوا۔

تصانيف:

  آپ کی مشہور تصانیف کے اسماء ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:

1۔ "عمدة البيان فى اعلان مناقب النعمان" (1285ھ):

یہ کتاب وہابیوں کے شیخ الکل جناب میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کی مشہور تصنیف "معیار الحق" کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ پہلے یہ کتاب فارسی میں چھپوائی گئی، بعد میں اس کی مقبولیت کے پیش نظر اردو میں بھی اشاعت کی گئی۔

2۔ "تحفہ دستگیریہ بہ جواب اثنا عشریہ" (1285ھ):

اس کتاب میں مولوی غلام علی قصوری ثم امرتسری کے احناف پر دس اعتراضوں کے جواب ہیں۔

3۔ "تحقيق صلوة الجمعہ" (۱۲۸۸ ھ):

 تفصیل معلوم نہ ہو سکی۔

4۔ "مخرج عقائد نوری بحواب نغمہ طنبوری پادری عماد الدین" (1294ھ):

رسوائے پنجاب پادری عماد الدین نے "نغمہ طنبوری" میں اسلام پر بڑے رکیک حملے کئے تھے۔ مولانا قصوری نے اس کتاب میں ان خیالات کی پر زور تردید کی اور ساتھ ہی لودھیانہ میں ایک مناظرہ میں پادری عماد الدین کو شکست فاش دی۔

5۔ "ہدیۃ الشيعتين منقبت چار یار معہ حسنين ﷢" (1295ھ):

یہ کتاب فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شائع ہوئی اس میں شیعہ اور خوارج کے نظریات کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔

6۔ "توضیح دلائل وتصريح ابحاث فريد كوٹ":

 ریاست فرید کوٹ کے راجہ نے اپنے اہتمام میں علمائے اہل سنت اور غیر مقلدین کے درمیان بڑے مناظرے کرائے۔ ان تمام مناظروں میں ملک کے بڑے بڑے جید علماء شریک ہوتے تھے۔ مولانا قصوری نے ان مباحث کو یکجا جمع کرکے ترتیب دیا اور آخر میں مہا راجہ فرید کوٹ نے فیصلہ بھی دیا۔ یہ کتاب نظریاتی اختلافات کی ایک تاریخی روئیداد ہے اور خاص کر مسئلہ تقلید میں بڑا ہی مواد جمع کیا گیا ہے۔

7۔ "عروة المقلدين بالهام القوى المبين" (1300ھ):

 مسئلہ تقلید اس زمانے کے علمائے دین میں ما بہ النزاع بن گیا تھا اور ہر سطح پر اس موضوع پر گفتگو ہوتی تھی۔ مولانا قصوری نے اس کتاب میں تقلید پر بڑے پر زور دلائل دیے ہیں۔

8۔ "ظفر المقلدين" (1302ھ):

یہ کتاب مولوی محی الدین لکھوی کی کتاب "ظفر المبین" کے جواب میں لکھی گئی اور مسئلہ تقلید پر بڑے پختہ دلائل دیے گئے۔

9۔ "جواهر مضیہ رد نیچریہ" (1304ھ):

اس کتاب میں سرسید احمد خان کے ایک خط کا جواب مفصل دیا گیا ہے اس خط میں سرسید احمد خان نے اپنے نیچری عقائد اور خاص کر اللہ کی ذات پر اپنا نظریہ پیش کیا تھا۔ مولانا قصوری نے نہ صرف اس خط کا جواب دیا بلکہ اسے کتابی شکل میں شائع بھی کروایا۔

10۔ "ظهور اللمعہ فی ظهر الجمعہ" (1304ھ):

مولانا قصوری نے اپنی کتاب "فتح رحمانی" کے حاشیہ میں اس کتاب کا ذکر فرمایا ہے مگر تفصیل معلوم نہ ہو سکی۔

11۔ "كشف السطور عن مسئلہ طواف القبور" (1305ھ):

 تفصیل معلوم نہ ہو سکی۔

12۔ "نصرة الابرار فی جواب الاشتهار" (1305ھ):

 یہ رسالہ گوجرانوالہ کے بعض غیر مقلدین کے اس اشتہار کے جواب میں لکھا گیا جس میں انہوں نے صلوٰۃ وسلام پر اعتراض کیا۔ آپ نے گوجرانوالہ کے عوام کی دعوت پر ان اشتہار والے علماء کا سخت تعاقب کیا اور گوجرانوالہ پہنچ کر کوٹ بھوانیداس میں مولوی عبد العزیز اور مولوی عبد القادر سے مناظرہ کیا اور اس مناظرے کو آپ نے کتابی شکل میں شائع کرا کے تقسیم کیا۔

13۔ "تقديس الوكيل عن توهين الرشيد والخليل" (1307ھ):

یہ کتاب آپ کی اعتقادی اور فکری اختلافات میں مفاہمت کے لئے ایک اہم کوشش ہے۔ اس کتاب کو ان تمام اختلافات کی اصلاح میں ایک بنیادی اور فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوگئی ہے جو آج تک بعض حلقوں میں وجہ نزاع بن گئے ہیں۔ سب سے پہلے دیوبندی مکتبہ فکر کے ان علمائے ہند نے جن میں سے بعض حضرات حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے مرید بھی تھے ان مسائل سے اختلاف کیا جو سنی مکتبہ فکر میں مسلمہ حیثیت رکھتے تھے۔ ان مسائل پر ان سے پہلے ابن تیمیہ، قاضی شوکانی، محمد بن عبد الوہاب نجدی اور پھر اسمعیل دہلوی اپنی تحریروں میں اعتراضات کر چکے تھے۔ علمائے دیو بند نے ان حضرات کی تحریروں سے متاثر ہو کر سواد اعظم اہلسنت کے معتقدات کو غلط قرار دینا شروع کر دیا تو علمائے ربانی نے ان کی تحریروں کا نوٹس لیا، مگر جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں علمائے اہل سنت پر جو مصائب ٹوٹے اُن سے ان بد عقیدہ علماء کے حوصلے بلند ہو گئے اور ان کی یہ حرکتیں با قاعدہ ایک فتنے کی شکل اختیار کر گئیں۔ بعض صلح جو حضرات نے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے رجوع کیا اور ان کی رائے لی تو آپ نے "فیصلہ ہفت مسئلہ" کی صورت میں ان لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر بات سلجھنے کے بجائے بگڑتی چلی گئی۔ مولانا عبد السمیع بیدل رامپوری کی کتاب "انوار ساطعہ" کے رد میں مولوی خلیل احمد انبیٹھوی (جو ان دنوں بہاولپور میں مدرس تھے) نے "براہین قاطعہ" لکھی۔ اس کتاب میں وہ علمائے اہل سنت پر خوب برسا، اس کتاب کو مولوی رشید احمد گنگوہی کی مکمل تائید حاصل تھی بلکہ بقول مصنف نزہۃ الخواطر کے یہ کتاب مولوی گنگوہی ہی کی ہے۔

 مولوی انبیٹھوی مولانا قصوری کے مخلص احباب میں سے تھے اور علمائے اہل سنت کی ان تمام تحریروں پر تائیدی اور تصدیقی مہریں ثبت کرتے تھے جو اعتقادی مسائل پر سامنے آتے۔ "ابحاث فرید کوٹ" میں مولوی انبیٹھوی ان تمام اعتقادی مسائل میں تصدیقی مہریں ثبت کر چکے تھے جو علمائے اہل سنت کے اعتقادی نظریات پر مبنی تھے۔ "براہین قاطعہ" کی تحریر سے مولانا قصوری کو جو صدمہ ہوا وہ بنفس نفیس بہاولپور پہنچے، اپنے دوست سے بالمشافہ گفتگو کر کے صورت حال معلوم کرنے کی سعی بلیغ فرمائی مگر صاحب "براہین قاطعہ" کو اپنی ہٹ پر قائم پا کر حیرت زدہ رہ گئے۔ اندریں حالات مولانا قصوری کے سامنے اس کے بغیر چارہ کار نہ تھا کہ ان مسائل کو عوام کے سامنے پیش کر کے مولوی انبیٹھوی اور ان کے ہم خیال علماء کو بحث کا موقعہ دیا جائے۔ چنانچہ شوال 1306ھ بمقام بہاولپور ان اعتقادی مسائل پر مفاہمت کی ایک بھر پور کوشش کی۔ مولوی انبیٹھوی اپنے چھ دیوبندی علماء لے کر فروکش ہوئے اور مولانا قصوری نے اپنے چھ ساتھیوں سمیت نواب آف بہاولپور کی نگرانی میں ان مسائل پر گفتگو کا آغاز کیا جو "انوار ساطعہ" اور "براہین قاطعہ" میں زیر بحث آچکے تھے۔ اس اعتقادی مفاہمت کی مجلسی بحث کے حکم حضرت شیخ المشائخ خواجہ غلام فرید چشتی حنفی چاچڑاں شریف ﷫ مقرر ہوئے۔ مناظرے میں مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کو شکست فاش ہوئی اور حَکَم مناظرہ نے لکھ دیا کہ ان دیوبندی حضرات کے اعتقاد ان وہابی علماء سے ملتے ہیں جو اس برصغیر میں اعتقادی خلفشار کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کو ریاست سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔

علمائے دیوبند نے بعض اشتہارات میں اپنے ہم خیال عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ نظریات تو محض علمائے برصغیر کے ہاں ہی پائے جاتے ہیں علمائے حرمین شریفین تو ان کے ہمنوا نہیں۔ مولانا قصوری ۱۳۰۷ھ میں اس کتاب کو لے کر عازم بیت اللہ ہوئے اور دوران سفر اس کتاب کا عربی ترجمہ بھی کرتے رہے۔ چنانچہ وقت کے جید علمائے دین نے اس کتاب کی مکمل تائید فرمائی۔ علمائے حرمین شریفین کے کچھ نام یہ ہیں جنہوں نے مولانا قصوری کی خدمت کو سراہا۔ مفتی محمد صالح کمال حنفی مکی صاحب، مفتی محمد سعید شافعی مکی صاحب، مفتی محمد عابد بن حسین مالکی مکی صاحب، مفتی خالد بن ابراہیم حنبلی مکی صاحب اور مفتی عثمان بن عبد السلام حنفی مدنی صاحب ۔

بعض دیوبندی حضرات کا یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ علمائے حرمین چونکہ اردو نہیں جانتے تھے مولانا قصوری کی ہاں میں ہاں ملا کر تصدیق کر دی تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان علماء میں مولانا عبدالحق مہاجر مکی بھی ہیں۔ یہ ضلع الٰہ آباد وقصبہ نارہ کے باشندے تھے یہ تو اردو جانتے تھے۔ گنگوہی صاحب کے سوانح نگار عاشق الہٰی میرٹھی کے بقول گنگوہی صاحب کو بھی جانتے تھے 2 انہوں نے کیسے تصدیق کر دی؟ ان علماء میں حضرت مولانا امداد اللہ مہاجر مکی صاحب بھی ہیں جو کہ گنگوہی صاحب کے پیر ہیں کیا انہوں نے بھی ایسے ہی تصدیق فرما دی؟ حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی صاحب مہاجر مکی نے بالتفصیل تقریظ وتصدیق سے نوازا جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے:

 "سو کہتا ہوں کہ میں جناب مولوی رشید کو رشید سمجھتا تھا مگر میرے گمان کے خلاف کچھ اور ہی نکلے مولوی رشید احمد اس مردود (قادیانی) کو مرد صالح کہتے تھے، اور جو علماء اس مردود کے حق میں کچھ کہتے تھے مولوی رشید احمد اپنی ہٹ سے نہیں ہٹتے تھے، اور کہتے تھے مرد صالح ہے۔" 3

حضرت علامہ مولانا انوار اللہ صاحب مصنف "افادة الافہام" جو مشاہیر علمائے ریاست حیدر آباد دکن ہیں انہوں نے بھی اس کتاب کی تصدیق فرمائی۔

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مفتی احمد رضا خان محدث بریلوی نے 1320ھ ميں "المعتمد المستند" تصنیف فرمائی۔ (اصل کتاب "المعتقد المنتقد" ہے جو حضرت علامہ شاہ فضل رسول قادری بدایونی (ولادت ۱۲۱۳ھ، وصال ۱۲۹۸ھ) کی تصنیف ہے۔ اس کتاب پر امام اہلسنت مفتی احمد رضا خان محدث بریلوی نے حاشیہ بنام "المعتمد المستند" تحریر فرمایا ہے۔) جس میں مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کے براہین قاطعہ کی کفری عبارت کی بنا پر تکفیر فرمائی پھر آپ ۱۳۲۴ھ میں حج وزیارت کے لئے تشریف لے گئے تو اس فتویٰ کی تائید وتقویت کیلئے "المعتمد المستند" کا وہ حصہ جس میں ان لوگوں کی نام بنام تکفیر تھی علمائے حرمین شریفین کی خدمات عالیہ میں پیش فرمایا اور دونوں حرم کے اجلہ علمائے کرام مفتیان عظام نے اس کی تصدیقیں فرمائیں۔ حج وزیارت سے واپسی کے بعد ان تمام تصدیقات کو حسام الحرمین کے نام سے چھپوا دیا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ رئیس العلماء مفتی محمد صالح کمال حنفی مکی اور مولانا عبد الحق مہاجر مکی کی تصدیقات بھی اس کتاب میں موجود ہیں جو کہ مولانا قصوری کی کتاب تقدیس الوکیل عن توہین الرشید والخلیل میں ہے۔

 ہاں اگر کوئی اعتراض کرے کہ امام اہلسنت کی کتاب پر علامہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی صاحب مہاجر مکی اور حضرت مولانا امداد اللہ مہاجر مکی کی تقریظات وتصدیقات کیوں نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت رحمت اللہ کیرانوی صاحب کا سن وصال ۱۳۰۸ھ اور حضرت امداد اللہ مہاجر مکی صاحب کا سن وصال ۱۳۱۷ھ ہے اور امام اہلسنت ۱۳۲۴ھ میں مکہ مکرمہ تشریف لے گئے لہٰذا یہ اعتراض درست نہیں۔

14۔ "تحقيق تقديس الوكيل" (1308ھ):

اس کتاب میں آپ نے بڑی تحقیق وتفصیل سے حضرت باری تعالیٰ کی تقدیس کو پیش کیا ہے اور ابن تیمیہ کے مقلدین کے عقائد کی بے راہ روی کی نشاندہی کر کے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے جو وہ آئے دن اٹھاتے رہتے تھے۔

رد قاديانيت:

 براہین احمدیہ کی ابتدائی اشاعت کے وقت سے ہی مولانا قصوری نے اپنی مومنانہ فراست سے یہ بھانپ لیا تھا کہ یہ بڑا فتنہ ہے چنانچہ اس فتنہ کی سرکوبی کیلئے اول روز سے ہی میدان عمل میں آگئے اور رد قادیانیت میں اولیت کا سہرا بھی آپ ہی کے سر ہے آپ اپنی تحاریر وتقاریر میں براہ راست مرزا دجال کو مخاطب کرتے رہے اور وہ بھی اپنی کتابوں واشتہارات میں مولانا قصوری کو مخاطب کرتا رہا۔

1۔ "تحقیقات دستگيريہ فى رد هفوات براهينيہ" (1883ء):

 مولانا قصوری کی یہ رد قادیانیت میں پہلی تصنیف ہے جس میں علمائے ہند خصوصاً لاہور وامرتسر کے علماء کی تصدیقات بھی موجود ہیں۔

2۔ "رجم الشياطين برد اغلوطات البراهين" (1886ء):

یہ کتاب عربی زبان میں ہے جس کو مولانا قصوری نے اپنی کتاب "تحقیقات دستگیریہ" سے ملخص کیا اور علمائے حرمین شریفین زادھما اللہ شرفا وتعظیما سے تصدیقات حاصل کیں جس میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی حنفی کی بھی تصدیق موجود ہے۔ اسی کتاب کے ذریعے علمائے حرمین شریفین فتنۂ قادیانیت سے واقف ہوئے اور یہ کتاب مرزا قادیانی کو کھٹکتی تھی جس کا اظہار خود قادیانی نے اس طرح کیا، "مولوی غلام دستگیر قصوری وہ بزرگ تھے جنہوں نے میرے کفر کیلئے مکہ معظمہ سے کفر کے فتوے منگوائے تھے۔ 4

3۔ "فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی" (1314ھ):

مولانا قصوری کی یہ کتاب قادیانیوں کے ایک اشتہار کے جواب میں معمول کی ایک تصنیف ہے۔ لیکن مرزا قادیانی کذاب کی ایک معرکۃ الاراء کذب بیانی نے ہمارے اور قادیانیوں کے لیے اس کتاب کو ایک تاریخی معرکۃ الاراء کتاب بنا دیا ہے۔

مرزا دجال کا ایک اور جھوٹ:

مولانا قصوری کا وصال ۱۸۹۷ء میں ہوا، اس وقت مرزا زندہ تھا۔ مولانا قصوری فتنہ قادیانیت کے استیصال میں اول روز سے ہی مصروف عمل تھے اور دجال مرزا آپ کی حیات میں آپ کے مقابل ہونے سے گریز کرتا رہا جیسا کہ آپ نے اپنی رد قادیانیت پر کتاب "فتح رحمانی" میں حمد وصلوٰۃ کے بعد رقمطراز ہیں۔ "عبدہ الحقیر محمد ابو عبد الرحمٰن فقیر غلام دستگیر ہاشمی حنفی قصوری کان الله لہ برادران دین اسلام کی خدمت میں اعلام کرتا ہے کہ فقیر ابتداءً ۱۳۰۲ ہجری مقدسہ سے مرزا غلام احمد قادیانی کو دنیا پرست اور دین فروش جانتا ہے چنانچہ محض ابتغاء لمرضات الله اس کی تردید میں حتی الامکان مصروفیت کر کے حضرات علماء حرمین محترمین زادهما الله تعالىٰ حرمۃ وشرفا سے اس کی کتاب "براہین احمدیہ" اور رسالہ "اشاعۃ السنہ" ذی قعدہ وذی الحجہ ۱۳۰۱ھ محرم ۱۳۰۲ھ ہے، جس میں اس کی تاویلیں تھیں بھیج کر استفتاء کیا تھا کہ ایسا شخص جو اپنے الہام کو مرادف وحی انبیاء یعنی قطعی ویقینی جانتا ہے اور انبیاء سے کھلی کھلی برابری بلکہ بعض جگہ اپنے آپ کو انبیاء سے بڑھاتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟ اس پر حضرت مولانا مولوی محمد رحمت اللہ (کیرانوی) نے (جو منجانب حضرت سلطان روم بتجویز حضرت شیخ الاسلام کے ملقب بخطاب پایہ حرمین شریفین ہیں) فقیر کے رسالہ "رجم الشیاطین برد اغلوطات البراہین" کی نقول کو مطابق اصل براہین کر کے لکھ دیا تھا کہ مرزا قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ پھر حضرات مفتیان حرمین شریفین نے بھی اس کے بارہ میں قادیانی شیطانی اور مسیلمہ کذاب ثانی وغیرہما الفاظ کو استعمال فرما کر رسالہ موصوفہ کی کمال تصدیق فرمائی جو ۱۳۰۵ھ میں واپس آیا جس کو فقیر نے بعد مدت دراز اس کی توبہ کے انتظار کے ۱۳۱۲ھ کے صفر میں شائع کر کے اپنی سبکدوشی حاصل کر لی تھی پھر آخیر رجب۱۳۱۴ھ میں مرزا جی نے رسائل اربعہ فقیر کو بھیج کر بشمولیت بہت سے علماء دین متین کے فقیر کو بھی مباہلہ کے واسطے قسمیں دے کر بلایا اور مباہلہ نہ کر نیوالے کو ملعون بنایا فقیر نے بنظر صیانت عقائد عوام اہل اسلام مرزا جی کو قبولیت مباہلہ لکھ کر ۱۵ شعبان تاریخ مقرر کر کے معہ اپنے دونوں فرزند زادوں کے ۲ شعبان کو وارد لاہور ہوئے، جس پر مرزا جی کی طرف سے حکیم فضل الدین لاہور میں آیا اور ایک مجمع عظیم کر کے مسجد ملا مجید میں فقیر پر معترض ہوا کہ حضرت اقدس مرزا صاحب نے آپ کی یہ غلطی نکالی ہے کہ مباہلہ قرآنی میں صیغہ جمع ہے آپ تنہا کیونکر مباہلہ کر سکتے ہیں؟ فقیر نے اس مجمع میں اپنے رقعہ قبولیت مباہلہ سے اپنے فرزندوں کی شمولیت سے اپنا جمع ہونا ثابت کیا بلکہ اس وقت دونوں کو رو برو دکھلا دیا۔ جس پر مدعی مسیح موعود اور اس کے حواریوں کی غلطی مانی گئی تھی پھر ظہور اثر مباہلہ کے لئے جو مرزا جی نے ایک برس کی میعاد رکھی تھی اس کو فقیر نے بدلیل قرآن وحدیث اٹھانا چاہا اس پر حکیم مذکور اور مرزا جی نے ہٹ کیا۔ جس پر فقیر نے ۱۶ شعبان کو اشتہار شائع کر کے میعاد ۲۵ شعبان ایزاد کی اور آخیر شعبان تک منتظر رہا بلکہ پانچ روز امرتسر میں جا کر مرزا جی کو بلایا وہ مباہلہ کے لئے نہ آئے اور اشتہار مورخہ ۲۰ شعبان بجواب اشتہار فقیر اس مضمون کا شائع کیا کہ تمام احادیث صحیحہ سے ظہور اثر مباہلہ کی میعاد ایک سال ثابت ہے اور میں مدعی نبوت پر لعنت بھیجتا ہوں اور میری تکفیر کرنے والے تقویٰ اور دیانت کو چھوڑتے اور مجھ کو باوجود کلمہ گو اور اہل قبلہ ہونے کے کافر ٹھہراتے ہیں الخ۔ اس کے جواب میں فقیر نے پندرہ اکابر علمائے اہل سنت لاہور وقصور وامر تسر سے بدلیل قرآن وحدیث تصدیق کرایا کہ مباہلہ شرعی میں کوئی میعاد سال وغیرہ نہیں ہے مرزا قادیانی نے محض بغرض دھوکہ دہی جو اس کا جبلی وطیرہ ہے قید ایک سال لگائی ہے الخ اور فقیر نے رمضان مبارک میں اس کے اشتہار کی تردید میں بہت سی تصانیف مرزا قادیانی سے اس کے کھلے کھلے دعویٰ نبوت کے اور نیز توہین انبیاء کرام جو سبب ہے اس کی تکفیر کا ثابت کر دیے ہیں اور ان شاء اللہ العزیز وہ تمام مضمون ایک کتاب موسوم بنام "تصدیق المرام بتکذیب قادیانی ولیکھرام" میں شائع ہوں گے جس سے سب پر ظاہر وباہر ہو جائے گا کہ مرزا جی باوصف ان دعویٰ نبوت وتوہین انبیاء کے ہر گز ہر گز کلمہ گو اور اہل قبلہ متصور نہیں ہیں نعوذ بالله من الحور بعد الكور۔

آپ کے وصال کے بعد اپنی سچائی ظاہر کرنے کیلئے مرزا دجال نے آپ پر یہ جھوٹا الزام لگایا:

"مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری نے اپنی کتاب "فتح رحمانی" میں اپنے طور پر میرے ساتھ مباہلہ کیا اور یہ دعا کی کہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے خدا اس کو ہلاک کر دے۔"4

ایک اور جگہ لکھتا ہے:

"مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنی کتاب میں اور مولوی اسمٰعیل علی گڑھ والے نے میری نسبت قطعی حکم لگایا کہ اگر وہ کا ذب ہے تو ہم سے پہلے مرے گا اور ضرور ہم سے پہلے مرے گا کیونکہ کاذب ہے۔ مگر جب ان تالیفات کو دنیا میں شائع کر چکے تو پھر بہت جلد آپ ہی مر گئے۔" 5

مرزا دجال نے اس الزام کو اپنی ان تالیفات میں بھی ذکر کیا ہے۔

1)  (چشمہ معرفت ص 3، روحانی خزائن ج 23، ص 3)

2)  (اربعین نمبر 4 صفحہ 99، روحانی خزائن ج 17، ص 441)

3)  (رسالہ تحفۃ الندوہ ص 10، روحانی خزائن ج 19 ص 98)

4)  (حقیقۃ الوحی ص 344، روحانی خزائن ج 22 ص 344)

5)  (نزول المسیح ص 84، 85، روحانی خزائن ج 18 ص 61، 460)

دجال مرزا جس نے اللہ رب العالمین پر جھوٹ باندھا، اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کے فرمان انا خاتم النبيين لا نبی بعدی کو جھٹلایا، حضرت بی بی مریم صدیقہ جن کی پاکدامنی کی گواہی اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید نے دی، ان پر تہمت باندھی۔ تو اگر کذاب قادیانی اپنے مخالف (قصوری) جس کے شب وروز اس کی تردید وتکذیب میں صرف ہوتے تھے، ایسے پر جھوٹ باند ھے تو کوئی بڑی بات نہیں، کیونکہ اس کے تمام دعووں کی عمارت ہی جھوٹ اور کذب پر مبنی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا اس لئے اس نے "فتح رحمانی" کو "فتح رحمان" لکھا۔6اور کہیں "فیض رحمانی" لکھا۔7

آپ پوری کتاب "فتح رحمانی" چھان ماریے ایک ایک سطر کو عرق ریزی سے پڑھ لیجئے پوری کتاب میں آپ کو یہ الفاظ۔ "یہ دعا کی کہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے خدا اس کو ہلاک کر دے" اور یہ الفاظ "اگر وہ کاذب ہے تو ہم سے پہلے مرے گا اور ضرور ہم سے پہلے پہلے مرے گا کیونکہ کاذب ہے" کہیں بھی نہیں ملیں گے۔ صبح قیامت تک مرزا غلام کی ذریت یہ الفاظ اس کتاب "فتح رحمانی" میں نہیں دکھا سکتی۔ تو ثابت ہوا کہ مرزا دجال غلام قادیانی اپنے وقت کا کذاب اعظم تھا کتاب فتح رحمانی کا وجود ہی مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے دعوؤں کو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔

4۔ تصديق المرام بتكذيب قادیانی ولیکهرام:

اس کتاب کا ذکر مولانا قصوری نے فتح رحمانی بہ دفع کید قادیانی میں ذکر فرمایا، اس کی تفصیل معلوم نہ ہو سکی۔


  • 1 تحفہ دستگیریہ، صفحہ :133 بحوالہ تذکرہ علمائے اہلسنت وجماعت لاہور از صاحبزادہ علامہ اقبال احمد فاروقی صاحب
  • 2 تذکرۃ الرشید حصہ اول صفحہ :92 بحوالہ تحقیقات صفحہ :236
  • 3 تقدیس الوکیل عن توہین الرشید والخلیل عربی، اردو صفحہ :307
  • 4 حقیقۃ الوحی ص 259، روحانی خزائن ج 22 ص 259
  • 4 لیکچر لاہور ص 47، روحانی خزائن ج 20، ص 193
  • 5 ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص: 9، روحانی خزائن ج :17، ص :45
  • 6 لیکچر لاہور ص 47، روحانی خزائن ج 20 ص 193
  • 7 چشمہ معرفت ص 3، روحانی خزائن ج 23، ص 3

Powered by Netsol Online