1۔
اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا31
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
مختصر وضاحت :نبی اپنے بعد آنے والے نبی کی خوشخبری دیتے رہے، یہاں تک کہ آپ ﷺ مبعوث ہوئے، آپ ﷺ پر نزول وحی کے اختتام سے دین پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تو آپ ﷺ کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا تمام نبیوں کی نبوتوں اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے پر مشتمل ہے، اسی لئے اس کے بعد واتممت علیکم نعمتی فرمایا، علیکم یعنی نعمت نبوت کو میں نے تم پر تمام کردیا، لہٰذا دین کے اکمال اور نعمت نبوت کے اتمام کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی آسکتا ہے اور نہ سلسلۂ وحی جاری رہ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اس آیت کے متعلق بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کےپاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا، اے امیرالمومنین ! رضی اللہ عنہ،آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے ،اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نازل ہونے کے دن عید مناتے ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا ’’ کون سی آیت؟ اس یہودی نے یہی آیت ا’’الیوم اکملت لکم‘‘ پڑھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے نازل ہونے کے مقام کو بھی پہچانتا ہوں ، وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا۔2
مزید تفاسیر کے لئے
2۔
وَ ما اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا 283
اور اے محبوب ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا ۔
مختصر وضاحت:اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضورسیّد المرسلینﷺ وَسَلَّمَ کی رسالت عامّہ ہے، تمام انسان اس کے اِحاطہ میں ہیں ،گورے ہوں یا کالے، عربی ہوں یا عجمی، پہلے ہوں یابعد والے،سب کے لئے آپﷺ رسول ہیں اور وہ سب آپ ﷺ کے اُمتی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں جس کو نبوت ملیں ۔
مزید تفاسیر کے لئے
3۔
قُلْ يَایُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا1584
تم فرماؤ اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں۔
مختصر وضاحت ۔یہ دونوں آیتیں صاف اعلان کررہی ہیں کہ حضور علیہ السلام تمام انسانوں کی طرف رسول ہوکر تشریف لائے ہیں جیسا کہ خود آپ ﷺ نے فرمایا ہے: انا رسول من ادرکت حیا و من یولد بعدی۔ترجمہ: میں اس کے لئے بھی اللہ کا رسول ہوں جس کو اس کی زندگی میں پالوں اور اس کے لئے بھی جو میرے بعد پیدا ہو۔5 پس ان آیتوں سے واضح ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا، قیامت تک آپ ﷺ ہی صاحب الزماں رسول ہیں۔ بالفرض اگر آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو حضور علیہ السلام کا فۃ الناس کی طرف اللہ تعالیٰ کے صاحب الزماں رسول نہیں ہوسکتے بلکہ براہ راست مستقل طور پر اسی نبی پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا اور اس کو اپنی طرف اللہ کا بھیجا ہوا اعتقاد کرنا فرض ہوگا، ورنہ نجات ممکن نہیں ۔
مزید تفاسیر کے لئے
4۔
وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِي اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِي مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ66
اور (وہ وقت بھی یاد کیجئے) جب عیسیٰ بن مریم (علیھما السّلام) نے کہا: اے بنی اسرائیل! بیشک میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسولِ (معظّم ﷺ ) کی (آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد (ﷺ) ہے۔
مختصر وضاحت ۔قرآن حکیم میں مذکور انبیاء علیھم السلام اور ان پر نازل کردہ آسمانی کتب و صحائف کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء سابقین جہاں اپنے سے پہلے انبیاء اور ان کی طرف نازل ہونے والی وحی کی تصدیق کی وہاں آئندہ آنے والے نبی کی خوشخبری بھی سناتے رہے ہیں۔ اس کی مثال سورۃ الصف کی مذکورہ بالا آیت میں ہے جس میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ایک طرف وحی ماسبق کی تصدیق فرما رہے ہیں تو دوسری طرف اپنے بعد تشریف لانے والے نبی کا آسمانی نام لے کر خوشخبری بھی سنا رہے ہیں۔ قرآن حکیم میں اس مضمون کی آیات کثیر تعداد میں موجود ہیں جن میں سے چند آیات ہم گزشتہ صفحات میں بیان بھی کر چکے ہیں۔ لیکن قرآن اور صاحب قرآن اس باب میں فقط پہلے انبیاء اور وحی ماسبق کی تصدیق تو کرتے ہیں مگر اپنے بعد کسی نبی یا وحی کا سرے سے ذکر نہیں کرتے، لهٰذا اگر حضور ﷺ کے بعد سلسلہ نبوت کا اجراء مانا جائے تو اس کی تصدیق قرآن سے ہونی زیادہ اہم اور ضروری تھی کیونکہ کتب سابقہ کی تصدیق اگر اہلِ کتاب کو نعمت ِاسلام کی طرف راغب کرتی ہے تو زمانہ مابعد میں آنے والے انبیاء پر ایمان لانا آئندہ نسلوں کے لیے مدار نجات ہے۔قرآن اور صاحب قرآن کا انبیاء سابقین کے اسلوب کے برعکس اشد ضرورت کے باوجود اپنے بعد جدید نبی اور جدید وحی کا ذکر نہ کرنا بلکہ حتمی طور پر انقطاعِ وحی اور ختمِ نبوت کا اعلان کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی آمد منشائے ایزدی ہی نہیں۔
مزید تفاسیر کے لئے
5۔
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ-وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ4،57
اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا اور آخرت پر یقین رکھیںوہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔
مختصر وضاحت ۔یہ آیت بڑی وضاحت سے ثابت کررہی ہے کہ ہم کو صرف حضور علیہ السلام کی نبوت اور آپ ﷺ کی وحی اور آپ ﷺ سے پہلے انبی اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ اگر بالفرض حضور علیہ السلام کے بعد کوئی بعہدئہ نبوت مشرف کیا جاتا تو ضرور تھا کہ قرآن کریم اس کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے کی بھی تاکید فرماتا، معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا۔
مزید تفاسیر کے لئے
6۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُؕ1368
اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے اُن رسول پر اُتاری اور اُس کتاب پر جو پہلے اُتاری۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت میں بھی درج بالا حکم فرمایا گیا کہ اپنے سے ما قبل جو نازل ہوا اس پر ایمان لاؤ چونکہ آپ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں تو بعد کا حکم بھی نہیں دیا گیا۔
مزید تفاسیر کے لئے
7۔
لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ1629
ہاں جو ان میں علم میں پکے اور ایمان والے ہیں وہ ایمان لاتے ہیں اُس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا۔
مختصر وضاحت ۔ یہ آیت صاف طور سے اعلان کررہی ہیں بلکہ قرآن شریف میں سینکڑوں جگہ اس قسم کی آیتیں ہیں جن میں آنحضرت ﷺ کی نبوت اور آپ ﷺ پر نازل شدہ وحی کے ساتھ آپ ﷺ سے پہلے کے نبیوں کی نبوت اور ان کی وحی پر ایمان رکھنے کے لئے حکم فرمایا گیا لیکن بعد کے نبیوں کا ذکر کہیں نہیں آتا۔ ان دو آیتوں میں صرف حضور علیہ السلام کی وحی اور حضور علیہ السلام سے پہلے نبی علیہم السلام کی وحی پر ایمان لانے کو کافی اور مدار نجات فرمایا گیا ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
8 ۔
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ910
بےشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بےشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔
مختصر وضاحت ۔ خداوندعالم نے اس آیت میں وعدہ فرمایا ہے کہ ہم خود قرآن کریم کی حفاظت فرمائیں گے یعنی محرفین کی تحریف سے اس کو بچائے رکھیں گے قیامت تک کوئی شخص اس میں ایک حرف اور ایک نقطہ کی بھی کمی زیادتی نہیں کرسکتا ،اور نیز اس کے احکام کو بھی قائم اور برقرار رکھیں گے اس کے بعد کوئی شریعت نہیں جو اس کو منسوخ کردے، غرض قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کی حفاظت کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضور علیہ السلام کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں ہوسکتا۔
مزید تفاسیر کے لئے
9۔
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ8111
اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا ۔
مختصر وضاحت ۔ اس سے بکمال وضاحت ظاہر ہے کہ اس رسول ﷺ مصدق کی بعثت سب نبیوں کے آخر میں ہوگی وہ آنحضرت ﷺ ہیں۔اس آیت کریمہ میں دو لفظ غور طلب ہیں’ ایک تو ”میثاق النبیین” جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہ عہد تمام دیگر انبیأ علیہم السلام سے لیا گیا تھا دوسرا ”ثم جاء کم”۔ لفظ ”ثم” تراخی کے لئے آتا ہے یعنی اس کے بعد جو بات مذکور ہے وہ بعد میں ہوگی اور درمیان میں زمانی فاصلہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت سب سے آخر میں اور کچھ عرصہ کے وقفہ سے ہوگی۔ اس لئے آپ ﷺ کی آمد سے پہلے کا زمانہ’ زمانۂ فترت کہلاتا ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
10۔
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ912
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے۔
مختصر وضاحت ۔غلبہ اور بلند کرنے کی یہ صورت ہے کہ حضور ہی کی نبوت اور وحی پر مستقل طور پر ایمان لانے اور اس پر عمل کرنے کو فرض کیا ہے اور تمام انبی علیہم السلام کی نبوتوں اور وحیوں پر ایمان لانے کو اس کے تابع کردیا ہے اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت سب انبی کرام سے آخر ہو اور آپ ﷺ کی نبوت پر ایمان لانا سب نبیوں پر ایمان لانے کو مشتمل ہو۔ بالفرض اگر آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی باعتبار نبوت مبعوث ہو تو اس کی نبوت پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا فرض ہوگا جو دین کا اعلیٰ رکن ہوگا تو اس صورت میں تمام ادیان پر غلبہ مقصود نہیں ہوسکتا، بلکہ حضور علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لانا اور آپ ﷺ کی وحی پر ایمان لانا مغلوب ہوگا کیونکہ آنحضرت ﷺ پر اور آپ کی وحی پر ایمان رکھتے ہوئے بھی اگر اس نبی اور اس کی وحی پر ایمان نہ لایا تو نجات نہ ہوگی کافروں میں شمار ہوگا۔ کیونکہ صاحب الزمان رسول یہی ہوگا، حضور علیہ السلام صاحب الزماں رسول نہ رہیں گے۔(معاذاللہ)
مزید تفاسیر کے لئے
11۔
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ10913
اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب مرد ہی تھے جنہیں ہم وحی کرتے ۔
{p |مزید تفاسیر کے لئے }}
12۔
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ4314
اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجےمگر مرد جن کی طرف ہم وحی کرتے۔
{p |مزید تفاسیر کے لئے }}
13۔
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ715
اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجے مگر مرد جنہیں ہم وحی کرتے ۔
{p |مزید تفاسیر کے لئے }}
14۔
وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ5116
اور کسی آدمی کو نہیں پہنچتا کہ اللہ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے طور پر یا یوں کہ وہ بشر پردۂِ عظمت کے اُدھر ہو یا کوئی فرشتہ بھیجے کہ وہ اس کے حکم سے وحی کرے جو وہ چاہے بےشک وہ بلندی و حکمت والا ہے۔
مختصر وضاحت ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر نبی عَلَیْہِ السَّلَام پر وحی آتی تھی۔ نبوت کے لئے وحی لازم و ضروری ہے۔ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہم نے آپ سے پہلے جس امت کی طرف کوئی رسول اور نبی بھیجا ،ہم اس کی طرف وحی فرماتےرہے کہ زمین و آسمان میں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں جو عبادت کئے جانے کامستحق ہو، تو اخلاص کے ساتھ میری عبادت کرو اور صرف مجھے ہی معبود مانو۔17 ان تمام آیات کریمہ سے واضح ہے کہ وحی کے بغیر نبوت کا کوئی تصور نہیں ہے اور جب اس پر اجماع ہو چکا ہے کہ نزولِ قرآن کے بعد نزولِ وحی ممکن نہیں ہے تو پھر نبوت کیسے ممکن ہوئی؟تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی نبوت کا دعوٰی کرے گا وہ جھوٹ و فریب کاری کے سوا کچھ نہیں -
دُوسر ی بات یہ ہے کہ اِس وحی (یعنی قرآن مجید ) کے ہوتے ہوئے قیامت تک کسی اور وحی کی ضرورت نہیں ہو گی اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس وحی کو یعنی قرآن مجید کو ہی قیامت تک کیلئے کافی قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اِس وحی (قرآن مجید) میں قیامت تک کے لوگوں کی رہنمائی کیلئے مکمل سَامان موجود ہے،یہ آیت بڑی وضاحت سے ثابت کررہی ہے کہ ہم کو صرف حضور علیہ السلام کی نبوت اور آپ ﷺ کی وحی اور آپ ﷺ سے پہلے انبی اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ اگر بالفرض حضور علیہ السلام کے بعد کوئی بعہدئہ نبوت مشرف کیا جاتا تو ضرور تھا کہ قرآن کریم اس کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے کی بھی تاکید فرماتا، معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا۔
{p |مزید تفاسیر کے لئے }}
15۔
یُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِۚ2718
اللہ ثابت رکھتا ہے ایمان والوں کو حق بات پر دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں قولِ ثابت سے مراد وہ کلام ہے جو قبر میں ہر مسلمان قبر میں پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہے گا۔ احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ ہر مومن شخص قبر میں شہادت دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے آقا و مولا حضرت محمد ﷺ کو پہچاننے کے بعد کہے گا کہ یہ میرے نبی ﷺ ہیں یہی قول ثابت ہے۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قبر میں سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ ہی تشریف لائیں گے اور ہر شخص سے سوال بھی آپ ﷺ کے بارے میں کیا جائے گا۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر بالحدیث والآثار سے یہی ثابت ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ختمِ نبوت ہر مومن کے لیے دنیا سے لے کر قبر تک ایمان کا حصہ ہے اور وہاں سے حشر تک جاری و ساری ہے۔
اگر حضور ﷺ کے بعد کسی بھی قسم کا کوئی نبی مبعوث کیا جانا ہوتا اور اہلِ اسلام پر اس کی اتباع کو لازم ٹھہرایا جاتا تو لازمی طور قبر میں اس کی بھی پہچان کرائی جاتی اور امتی اس کا بھی نام لیتا لیکن اس کے بر عکس ہر مسلمان قبر میں نہ صرف اپنے آقا و مولا سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو نام لے کر پہچانتا ہے بلکہ خاتم النبیین کے الفاظ سے مرزائی اوہام کا رد بھی ہوتا ہے،نیز وہاں قادیانیوں کو بھی حق الیقین ہوجائیگا کہ ہم صریح غلطی پر تھے ۔
مزید تفاسیر کے لئے
16۔
اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَؕ8319
اے لوگو اس پر چلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اُترا (ف۳) اور اسے چھوڑ کر اور حاکموں کے پیچھے نہ جاؤ-
مختصر وضاحت ۔ اِس آیتِ کریمہ اور مفسرین کرام کی وضاحت سے یہ واضح ہوا کہ جب آپ (ﷺ) پر نازل ہونے والی وحی (قرآن) میں قیامت تک کے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی اور پند و نصیحت کا مکمل سامان موجود ہے اور اِس وحی (قرآن) کو ہر قسم کی تحریف و تبدیلی اور کمی و بیشی سے بھی ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا گیا ہے -
مزید تفاسیر کے لئے
17۔
وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنْۢ بَلَغَؕ1920
اور میری طرف اس قرآن کی وحی ہوئی ہے کہ میں اس سے تمہیں ڈراؤں ۔
مختصر وضاحت ۔ یعنی میرے بعد قیامت تک آنے والے جن افراد تک یہ قرآنِ پاک پہنچے خواہ وہ انسان ہوں یا جن ان سب کو میں حکمِ الٰہی کی مخالفت سے ڈراؤں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جس شخص کو قرآنِ پاک پہنچا یہاں تک کہ اس نے قرآن سمجھ لیاتو گویا کہ اس نے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کلام مبارک سنا21 زیرِ نظر آیت کریمہ سے واضح ہے کہ یہ قرآن صر ف کسی ایک دور کے انسانوں کے لیے ہی حجت نہیں بلکہ قیامت تک ہر اس انسان کے لیے حجت ہے جس تک اس کا پیغام پہنچا۔ قرآن حکیم کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ کاانذار قیامت تک جاری ہے۔ اب قیامت تک صرف شریعتِ قرآن پر ہی عمل ہو گا کسی نئی شریعت کی ضرورت نہیں، یہی شریعت کافی و وافی ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
18۔
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ1922
تم فرماؤ اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں(ف۳۰۳) کہ آسمان وزمین کی بادشاہی اسی کو ہے۔
مختصر وضاحت ۔ یہ آیت اِس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ سیدنا حضرت محمد(ﷺ) تمام مخلوق کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں۔آقاکریم (ﷺ) کا جمیع خلق کی طرف مَبعوث کیا جانا اِس بات کو واضح کرتا ہے کہ آپ (ﷺ) کی رسالت کی دعوت قیامت تک تمام مخلوق کیلئے ہے اور تمام مخلوق آپ (ﷺ) کی رسالت پر ایمان لانے کی مکلف ہے یعنی کائنات انسانی میں خواہ اُس کا تعلق کسی بھی رنگ ،نسل ، قوم ،علاقہ اور زبان سے ہو آپ(ﷺ) اُس کے نبی اور رسول ہوں گے کیونکہ آپ (ﷺ) کی بعثت جمیع خلق کیلئے ہے -تو اس سے یہ واضح ہوا کہ کوئی بھی جھوٹی نبوت کا دعوی کرنے والا کذاب، دجال، مفتری، اگراللہ تعالیٰ کو خالق مانتا ہے اور اپنے آپ کو مخلوق اور انسانیت کی فہرست میں شمار کرتا ہے تو وہ آقا کریم (ﷺ) کی نبوت و رسالت کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا-یا تو آپ (ﷺ) کی نبوت و رسالت اور ختم نبوت پر ایمان لا کر مسلمان ہو جائےگا یا انکار کر کے کافر ہوجائے گا-اگر آپ (ﷺ) کی نبوت و رسالت پرایمان نہیں لاتا اور ختم نبوت کا انکار کرتا ہے تو انکار کرتے ہی کافر ہو جائے گا اب وہ مسلمان نہیں رہا، اب اگر وہ جھوٹی نبوت کا دعوٰی کرے گا تو کفر کی بنیاد پر کرے گا - تو کافر نبی کیسے ہو سکتا ہے؟ کیونکہ آقا پاک (ﷺ) کی نبوت و رسالت اور آپ (ﷺ) کی ختم نبوت کے انکار نے تو اُسے اسلام سے پہلے ہی باہر نکال دیا تھا - تو اِس سے واضح ہوا کہ جو بھی دجال، مفتری اور کذاب جھوٹی نبوت کا دعوٰی کرے گا تو وہ کفر کی بنیاد پر کرے گا اور کافر نبی نہیں ہو سکتا -
مزید تفاسیر کے لئے
19۔
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا4023
محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
مختصر وضاحت ۔ یعنی محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آخری نبی ہیں کہ اب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعدکوئی نبی نہیں آئے گا اورنبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نازل ہو ں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے24 وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ نص ِقطعی قرآن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مُخَلَّد فِی النِّیْرَان (یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تَرَدُّد کو راہ دے وہ بھی کافر بَیِّنُ الْکَافِرْ جَلِیُّ الْکُفْرَانْ (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر روشن) ہے۔25
مزید تفاسیر کے لئے
20۔
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا126
بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے اُتارا قرآن اپنے بندہ پر جو سارے جہان کو ڈر سُنانے والا ہو۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت میں حضورسید المرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت عام ہونے کا بیان ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ساری مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے،خواہ جن ہوں یا بشر، فرشتے ہوں یا دیگر مخلوقات، سب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اُمتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کو عالم کہتے ہیں اور اس میں یہ سب داخل ہیں ۔ نیز مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَآفَّۃً ‘‘ یعنی میں تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں 27علامہ علی قاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس کی شرح میں فرماتے ہیں :یعنی تمام موجودات کی طرف (رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، خواہ) جن ہوں یا انسان یا فرشتے یا حیوانات یا جمادات ۔28
مزید تفاسیر کے لئے
21۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ529
ہم کو سیدھا راستہ چلا۔
مختصر وضاحت ۔ بعض مفسرین کے نزدیک صراطِ مستقیم حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس اور آپ ﷺ کے دونوں وزیر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھما ہیں۔اس تفسیر کے مطابق اب قیامت تک حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ و اہل بیت ہی صراط مستقیم کہلائیں گے۔ آپ ﷺ کے بعد کسی کی ذات کو، اس کے گھر والوں اور اہل مجلس لوگوں کو صراط مستقیم نہیں کہا جاسکتا۔ صراط مستقیم وہ راستہ ہے جو منزل تک پہنچاتا ہے اور وہ راستہ حضور نبی اکرم ﷺ سے شروع ہوتا ہے اور آپ ﷺ کے اہلِ بیت و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعے سیدھا جنت کو جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اہلِ بیت اور صحابہ کرام صراطِ مستقیم اس معنی میں ہیں کہ وہ براهِ راست آپ ﷺ کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے پھر آپ ﷺ کی سنت مطہرہ اور سیرت پاک کی تعلیمات کو آگے بیان کیا اور اس کی تشریح کا فریضہ سر انجام دیا۔ یہاں ختم نبوت کا نکتہ یہ ہے کہ اب قیامت تک حضور نبی اکرم ﷺ ہی ہر شخص کے لیے مینارۂ نور ہیں اور آپ ﷺ ہی کی راہ ہدایت دنیوی و اخروی کامیابی کی راہ ہے اس کے بعد کسی اور کو ہدایت کی راہ لانے کی ضرورت نہیں۔
مزید تفاسیر کے لئے
22۔
قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى وَ مَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْۚ13630
یوں کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اوراس پر جو ہماری طرف اُترا اور جو اُتارا گیا ابراہیم و اسمٰعیل و اسحق و یعقوب اور ان کی اولاد پر اور جو عطا کیے گئے موسیٰ وعیسٰی اور جو عطا کیے گئے باقی انبیاء اپنے رب کے پاس سے۔
مختصر وضاحت ۔ سورۃ البقرۃ کی اس آیت نمبر 136 میں مسلمانوں کو صرف نزولِ وحی کی دو قسموں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے، ایک اس وحی پر جو ان کی طرف بھیجی گئی یعنی قرآن حکیم اور دوسری وہ جو پہلے انبیاء کی طرف بھیجی گئی جن میں سے چند جلیل القدر انبیاء کے اسمائے گرامی بطور مثال درج کیے گئے۔ اس جگہ وَمَا اُوْتِیَ صیغہ ماضی اور النَّبِیُّوْنَ پر لامِ استغراق اس بات پر دلالت کر تے ہیں کہ انبیاء پر آسمانی وحی کا نزول تمام ہوچکا۔ اس کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوگی۔
مزید تفاسیر کے لئے
23۔
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ-كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۫-وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ28531
رسول ایمان لایا اس پر جو اس کے رب کے پاس سے اس پر اُترا اور ایمان والے سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو یہ کہتے ہوے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے اور عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا تیری معافی ہو اے رب ہمارے اور تیری ہی طرف پھرنا ہے۔
مختصر وضاحت ۔ سورۃ البقرہ، کی محولہ بالا آیت میں ختم نبوت سے متعلق دو چیزیں بطور خاص قابلِ توجہ مذکور ہیں۔
1۔ صرف اس وحی پر ایمان لانا کافی ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ سے پہلے انبیاء پر نازل ہوئی۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد وحی آنے کا کوئی امکان ہوتا توآیت میں اس پر ایمان لانے کو بھی لازم قرار دیا جاتا۔
2۔ تمام انبیاء پر ایمان لانا واجب ہے۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی کسی بھی رنگ میں (خواہ بقول مرزا قادیانی ظلی یا بروزی صورت میں) آنے والا تھا تو آیت میں ضرور بالضرور اس کی اطلاع دی جاتی اوراس پر ایمان لانے کا حکم دیا جاتا۔ عدم ذکر اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کا وجود خارج از امکان ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
24۔
اِنَّاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ كَمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖۚ-وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ عِیْسٰى وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ هٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَۚ-وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًاۚ13632
بے شک اے محبوب ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے وحی نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کو بھیجی اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور عیسٰی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کو وحی کی اور ہم نے داود کو زبور عطا فرمائی۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ کے ذریعے امتِ محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام کو خبردار کیا گیا ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جن کے بارے میں قرآن خاموش ہے کیونکہ اگر اس سے متعلق کوئی حکم نازل کر دیا گیا تو اس چیز میں ہمیشہ کے لیے تمہارا اختیار ختم ہوجائے گا کیونکہ قرآن حکیم سب سے آخری وحی ہے، اس کے بعد کوئی وحی نازل نہ ہو گی کہ جس کے ذریعے اس حکم میں ترمیم ممکن ہو۔
مزید تفاسیر کے لئے
25۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ-وَ اِنْ تَسْــٴَـلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْؕ-عَفَا اللّٰهُ عَنْهَاؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ10133
اے ایمان والو ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بُری لگیں (ف۲۴۳) اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اتررہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی اللہ انہیں معاف فرماچکا ہے اور اللہ بخشنے والا حِلم والا ہے۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ کے ذریعے امتِ محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام کو خبردار کیا گیا ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جن کے بارے میں قرآن خاموش ہے کیونکہ اگر اس سے متعلق کوئی حکم نازل کر دیا گیا تو اس چیز میں ہمیشہ کے لیے تمہارا اختیار ختم ہوجائے گا کیونکہ قرآن حکیم سب سے آخری وحی ہے، اس کے بعد کوئی وحی نازل نہ ہو گی کہ جس کے ذریعے اس حکم میں ترمیم ممکن ہو۔علامہ محمود آلوسی بغدادی روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ تبدلکم ای بالوحی کما یفیدہ تقییدہ بقولہ تعالی حین ینزل القرآن34یعنی بیان کرنے سے مراد یہ ہے کہ بذریعہ وحی بیان کردیا جائیگا جیسا کہ حین ینزل القرآن کی قید سے معلوم ہوا اس سے پتا چلا کہ یہ آیت نزول قرآن کے زمانے کے بعد انقطاع وحی کا اعلان کرتی ہے اور وہ انقطاع نبوت کو مستلزم ہے ۔)
مزید تفاسیر کے لئے
26۔
وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ4134
اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے اتارا اس کی تصدیق کرتا ہوا جو تمہارے ساتھ ہے۔
مختصر وضاحت ۔اہل کتاب کو صرف اس وحی پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا جو حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی، آپ ﷺ کے بعد کسی پر نازل کردہ وحی پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیا گیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ وحی کا سلسلہ آپ ﷺ پر ختم ہو چکا ہے اور آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔
مزید تفاسیر کے لئے
27۔
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ یَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآءَهٗۗ-وَ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْؕ9135
اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کے اتارے پر ایمان لاؤ تو کہتے ہیں وہ جو ہم پر اترا اس پر ایمان لاتے ہیں اور باقی سے منکر ہوتے ہیں حالانکہ وہ حق ہے ان کے پاس والے کی تصدیق فرماتا ہوا۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں صرف حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل کردہ وحی کو حق کہا گیا ہے، آپ کے بعد کسی نبی پر نازل کردہ وحی کو حق نہیں کہا گیا جو آپ ﷺ کے خاتم الوحی اور خاتم النبیین ہونے کا واضح ثبوت ہے۔
28۔
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ9736
تم فرمادو جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو اس (جبریل)نے تو تمہارے دل پر اللہ کے حکم سے یہ قرآن اتارا اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتا۔
مختصر وضاحت ۔قرآن حکیم صرف ان آسمانی والہامی کتابوں کی تصدیق فرماتا ہے جو اس سے پہلے نازل ہوئیں، اپنے بعد کسی آسمانی کتاب کی تصدیق نہیں کرتا۔
مزید تفاسیر کے لئے
29۔
نَزَّلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ437
undefined
مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا آیات میں تسلسل کے ساتھ کتابِ حق کی شانِ مصدّقیت بیان ہوئی ہے۔ خاتم الانبیاء حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کی ایک واضح اور بین دلیل یہ ہے کہ آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب مبین اپنے سے پہلے نازل ہونے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔ اگر بعد میں کسی وحی کا نزول ہونا ہوتا تو اس کا تذکرہ بھی لازماً کیا جاتا۔ وہ وحی جو حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے نازل ہوئی اور جو وحی حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی دونوں اپنی شان اور مرتبہ میں وحی الٰہی ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ سابقہ کتبِ سماویہ اپنی صداقت و حقانیت کی تصدیق کے لیے قرآن کی محتاج ہیں۔ قرآن نے ان کی صداقت و حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ اس طرح منزل من اللہ کتابوں میں قرآن کریم نہ صرف خود وحی ہے بلکہ پہلے اترنے والی وحی کی تصدیق بھی کرنے والا ہے۔
ان آیات کریمہ سے دو چیزیں معلوم ہوئیں:
1۔ اللہ رب العزت نے اہل کتاب کو صرف قرآن مجید پر ایمان لانے کا حکم دیا اور اس کے بعد کسی اور وحی پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ صراحتاً اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی اور وحی کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
2۔ قرآن مجید صرف اپنے ما قبل وحی کی تصدیق کرتا ہے اگر مابعد وحی بھی نازل ہونا ہوتی تو ضرور اس کی بھی تصدیق کی جاتی۔ قرآن کو یہ شان اس لیے عطا کی گئی کہ اس نے آخر پر آکر سلسلۂ وحی کے خاتمے کا اعلان کرنا تھا جبکہ باقی سب کتابیں اس سے پہلے آ چکی تھیں۔
مزید تفاسیر کے لئے
30۔
وَ لَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ9738
اور جب ان کے پاس اللہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب (توریت) کی تصدیق فرماتی ہے۔
مختصر وضاحت ۔اس آیۂ کریمہ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ صرف ان الہامی کتابوں کے مصدق ہیں جو آپ ﷺ سے پہلے نازل ہوئیں۔ آپ ﷺ اپنے بعد کسی الہامی کتاب کے مصدق نہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں اور قرآن مجید آخری الہامی کتاب ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
31۔
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ۪-وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًاۙ739
اور اے محبوب یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اور تم سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسٰی بن مریم سے اور ہم نے ان سے گاڑھا عہد لیا۔
مختصر وضاحت ۔یہ آیت کریمہ میثاق انبیاء کے بیان پر مشتمل ہے۔ اس میثاق میں حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ سے قبل آنے والے تمام انبیاء اپنی ارواح مبارکہ کی صورت میں شریک ہوئے۔ اللہ رب العزت نے سب سے پہلے اپنے حبیب مکرم ﷺ کا ذکر فرمایا جس کی وجہ خود زبان رسالت مآب نے بیان فرمائی ہے:عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ فی قولہ تعالیٰ {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوحٍ} الاٰیۃ،قال النبي ﷺ : کنت أول النبیین في خلق وآخرھم فی البعث، فبدأ بي قبلھم قال النبي ﷺ : کنت أول النبیین في خلق وآخرھم فی البعث، فبدأ بي قبلھم 40
32۔
وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًاؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا7941
اور اے محبو ب ہم نے تمہیں سب لوگوں کے لیےرسول بھیجا اور اللہ کافی ہے گواہ۔
مختصر وضاحت ۔رسولِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام عرب و عجم اور ساری مخلوق کے لئے رسول بنائے گئے اور کل جہان آپ کا امتی کیا گیا۔ یہ سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جلیلُ القدر منصب اورعظیمُ الْمَرتَبَت قدر و مَنزِلَت کا بیان ہے۔ اَوّلین وآخرین سارے انسانوں کے آپ نبی ہیں ، حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر یَوم قیامت تک سب انسان آپ کے امتی ہیں ، اسی لئے تمام نَبِیُّوں نے حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے نماز پڑھی۔
مزید تفاسیر کے لئے
33۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَاٰمِنُوْا خَیْرًا لَّكُمْؕ17042
اے لوگو تمہارے پاس یہ رسول حق کے ساتھ تمہارے رب کی طرف سے تشریف لائے تو ایمان لاؤ اپنے بھلے کو اور اگر تم کفر کرو تو بے شک اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
مختصر وضاحت ۔ تمام بنی نوعِ انسان کو عظیم خوشخبری سنائی جارہی ہے کہ اے لوگو! تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حق کے ساتھ تشریف لاچکے، وہ خود بھی حق ہیں اور ان کا ہر قول ، ہر ادا حق ہے، ان کی شریعت حق ہے، ان کی طبیعت حق ہے، ان کی تعلیم حق ہے، وہاں باطل کا گزر نہیں۔ لہٰذا ان پر ایمان لے آؤ، اس میں تمہارے لئے خیر ہی خیر ہے اور اگر تم
رسخاتَمُ الْمُرْسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا انکار کروگے تو اس میں ان کا کچھ ضرر نہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے ایمان سے بے نیاز ہے۔قرآنِ حکیم نے اس آیت کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثتِ عامہ کا مضمون بیان کرتے ہوئے صرف آپ ﷺ ہی کی رسالت پر ایمان لانے کو تمام انسانیت کے لیے باعثِ خیر اور انکار کو غضب الٰہی کا باعث قرار دیا ہے۔ یہ حکم قیامت تک پیدا ہونے والی نسل انسانی کے لیے ہے۔ کوئی لمحہ اور کوئی فرد اس سے مستثنیٰ نہیں۔ لہذا حضور کی رسالت و نبوت ہی تا حشر تمام زمانوں اور تمام انسانوں کو محیط ہے۔ آپ پر ایمان لانے والے خیر سے اپنا دامن بھرتے رہیں گے اور منکرین غیض و غضبِ الٰہی کا شکار ہوتے رہیں گے۔ جب آپ ﷺ کی نبوت و رسالت قیامت تک جاری ہے توکسی اور نبی یا رسول کی آمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مزید تفاسیر کے لئے
34
۔
هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ،وَّ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْؕ2،343
وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں (ف۶) اور بےشک وہ اس سے پہلے ضرور کُھلی گمراہی میں تھےاور ان میں سے اوروں کوپاک کرتے اور علم عطا فرماتے ہیں جو ان اگلوں سے نہ ملے۔
مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا آیات میں حضور نبی اکرم ﷺ کی رسالت کے تمام عالمِ انسانیت پر محیط ہونے کا بیان ہے، جس سے یہ بات حتمی طور پر ثابت ہے کہ اس کائنات میں جب تک نسل انسانی کا ایک فرد بھی باقی ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی رنگ، نسل، قوم، علاقہ اور زبان سے ہو حضور نبی اکرم ﷺ بلاشرکت غیر اس کے نبی اور رسول ہوں گے نیز کائناتِ انسانی کے سارے افراد بلاامتیاز رنگ، نسل و قوم اور زمان و مکاں نبوت و رسالتِ محمدی ﷺ کے دائرے میں داخل ہیں۔
مزید تفاسیر کے لئے
3
5۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا،فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ اعْتَصَمُوْا بِهٖ فَسَیُدْخِلُهُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ فَضْلٍۙ-وَّ یَهْدِیْهِمْ اِلَیْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاؕ174،17544
اے لوگو بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور اُتارا۔تو وہ جو اللہ پر ایمان لائے اور اس کی رسّی مضبوط تھامی تو عنقریب اللہ انہیں اپنی رحمت اور اپنے فضل میں داخل کرے گا اور انہیں اپنی طرف سیدھی راہ دکھائے گا۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ کی رُو سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آنے والی سب سے روشن اور واضح دلیل ہے۔ آپ ﷺ کی بعثت کے بعد کسی دلیل کی ضرورت نہ رہی۔ آفتابِ محمدی ﷺ آسمانِ نبوت پر کائنات میں قیامت تک یونہی چمکتا رہے گا، اس کی روشنی کبھی کم نہ ہوگی کہ کسی دوسرے آفتاب کی ضرورت محسوس ہو۔
مزید تفاسیر کے لئے
3
6۔
وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗۚ1745
اور جو اس کا منکر ہو سارے گروہوں میں تو آگ اس کا وعدہ ہے ۔
مختصر وضاحت ۔سورہ ہود کی زیر نظر آیت میں اَحزاب سے مراد قیامت تک آنے والے انسانوں کے گروہ ہیں۔ ان میں سے جو بھی قرآن کا انکار کرے گا، اس کے پیغام کو جھٹلائے گا اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اس آیت سے درج ذیل اہم نکا ت اخذ ہوئے:
1۔ یہ آیت حضور نبی اکر م ﷺ کی رسالتِ عامہ کی دلیل ہے کیونکہ قرآن حکیم اور رسالتِ مصطفی ﷺ آپس میں لازم وملزوم ہیں۔ لهٰذا قیامت تک آنے والے انسانوں کے گروہوں میں سے جو کوئی رسالت مصطفی ﷺ کا انکا ر کرے وہ کافر اور جہنمی ہے۔
2۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ختمِ نبوت قرآن کا واضح پیغام ہے۔ لهٰذا منکرِ ختم نبوت صریحاً کافر ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
37۔
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ9646
بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہان کا راہنما ۔
مختصر وضاحت ۔اس آیہ کریمہ میں قبلہ اوّل کعبۃ اللہ جسے اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ کی خاطر جملہ عالمِ اسلام کا قبلہ بنا دیا، کی اوّلیت کا بیان ہے۔ یہ امر ملحوظِ خاطر رہے کہ کعبۃ اللہ اسلام کا ایک مرکزی شعار ہے۔ یہ تمام دنیا کے اہلِ اسلام کا قبلہ ہے۔ وہ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور حج و عمرہ میں اس کا طواف کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قبلہ اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کی خواہش سے بنایا۔ اس آیت کریمہ سے ظاہر ہے کہ کعبۃ اللہ تمام اہلِ جہان کے لیے تا قیامت مرکز ہدایت ہے۔ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کا یہی قبلہ ہے کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ قبلہ مصطفی ﷺ کی عالمگیریت آپ ﷺ کی رسالتِ عامہ کی آئینہ دار ہے اور رسالتِ عامہ ختمِ نبوت کی مستقل دلیل ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
38
۔
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ،وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا45،4647
اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکادینے والا آفتاب۔
مختصر وضاحت ۔العزت نے آپ ﷺ کی نبوت و رسالت اور رحمت کو جس طرح عالمگیر بنایا اور انہیں تمام زمان و مکان کی حدود و قیود سے ماورا رکھا اسی طرح آپ ﷺ کو عطا کی گئی نعمتوں اور فضیلتوں کو بھی زمان و مکان کی حد بندیوں سے ماورا، مطلق اور غیر مقید رکھا۔ آپ ﷺ کے کسی منصب، فضیلت اور شان پر ربِّ کائنات نے کوئی قید نہیں لگائی بلکہ آپ ﷺ کی ہر شان کو مطلق اور زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد رکھا۔ ایسے عظیم اور عالم گیر نبی ﷺ کے ہوتے ہوئے کسی اور کی نبوت کا گمان بھی صریح گمراہی اور ازلی بدبختی کو دعوت دینا ہے، قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی آپ کے فضائل اور اعزازات کو بیان کیا گیا تو انہیں مطلق رکھا گیا مثلاً فضیلت شاہدیت کا بیان اس نکتے کو کھول دیتا ہے۔
جب کبھی ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص شاہد یعنی گواہ ہے تو فوراً ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ کس چیز کا گواہ؟ اس لیے کہ جب تک کوئی شے متعین نہ کی جائے اس وقت تک گواہی کا تصور واضح نہیں ہوتا۔ اب کائنات کی ساری شہادتیں متعین ہیں لیکن شہادت مصطفوی ﷺ کو غیر متعین رکھ دیا گیا ہے اس کا مفہوم اس کے سوا اور کیا ہے کہ ازل سے ابد تک کائنات کی جس شے پر بھی گواہی مطلوب ہوگی، آپ کو اس پر گواہ بنایا جائے گا جبکہ اوروں کی شہادتیں زمان و مکان کے ساتھ مقید ہیں مگر حضور ﷺ کی شہادت اور گواہی ان حدود و قیود سے ماورا، مطلق اور عالمگیریت کی شان لیے ہوئے ہے، قرآن مجید نے گواہی کے اس تصور کو بڑی وضاحت کے ساتھ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں بیان کردیا ہے۔اس آیت کریمہ میں حضور ختمی مرتبت علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی تین شانوں کا ذکر ہے جو آپ ﷺ کے تمام عالمِ خلق کے شاہد اور مبشر و نذیر ہونے سے عبارت ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
3
9۔
قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًاؕ-اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠9048
تم فرماؤ میں قرآن پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا وہ تو نہیں مگر نصیحت سارے جہان کو۔
مختصر وضاحت ۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہمارے آقا و مولا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام مخلوق کی طرف مبعوث ہیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعوت تمام مخلوق کو عام ہے اور کل جہان آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمت ہے49
مزید تفاسیر کے لئے
40۔
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ10750
اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔
مختصر وضاحت ۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نبیوں، رسولوں اور فرشتوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے رحمت ہیں ، دین و دنیا میں رحمت ہیں ، جِنّات اور انسانوں کے لئے رحمت ہیں ، مومن و کافر کے لئے رحمت ہیں ، حیوانات، نباتات اور جمادات کے لئے رحمت ہیں الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں ، سیّدُ المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب کے لئے رحمت ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا رحمت ہونا عام ہے، ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لایا ۔ مومن کے لئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیامیں رحمت ہیں کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بدولت اس کے دُنْیَوی عذاب کو مُؤخَّر کر دیا گیا اور اس سے زمین میں دھنسانے کا عذاب، شکلیں بگاڑ دینے کا عذاب اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا عذاب اٹھا دیا گیا۔51
اس اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عالَم ماسوائے اللہ کو کہتے ہیں جس میں انبیاء وملائکہ سب داخل ہیں ۔ تو لاجَرم (یعنی لازمی طور پر) حضور پُر نور، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب پر رحمت و نعمت ِربُّ الارباب ہوئے ، اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند وفیضیاب ۔ اسی لئے اولیائے کاملین وعلمائے عاملین تصریحیں فرماتے ہیں کہ’’ ازل سے ابد تک ،ارض وسماء میں ، اُولیٰ وآخرت میں،دین ودنیا میں ، روح وجسم میں ، چھوٹی یا بڑی ، بہت یا تھوڑی ، جو نعمت ودولت کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی سب حضور کی بارگاہ ِجہاں پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹے گی۔52 جب یہ رحمت اپنے پورے جوبن پر ہے اور اس رحمت نے پوری کائنات کو اپنے ضمن میں لیا ہوا ہے تو پھر اور نبی کی کیا ضرورت باقی رھ جاتی ہے آپ ﷺ کی رحمت عامہ آپ علیہ السلام کی ختم نبوت کی واضح دلیل ہے ۔
مزید تفاسیر کے لئے
41۔
اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠8753
وہ تو نہیں مگر نصیحت سارے جہان کے لیے۔
مختصر وضاحت ۔ قرآن پاک قیامت تک تمام جہانوں کے لئے نصیحت ہے جب ہر زمانے کے لئے نصیحت موجود ہے تو اب کسی نصیحت کی ضرورت نہیں یہی خدا کا آخری پیغام ہے اور آخری نصیحت ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
42۔
یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ 15754
وہ انہیں بھلائی کا حکم دے گا اور برائی سے منع فرمائے گا اور ستھری چیزیں ان کے لیے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں اُن پر حرام کرے گا ۔
مختصر وضاحت ۔اس آیۂ مقدسہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے دو بنیادی فرائض نبوت کا ذکر کرتے ہوئے آپ ﷺ کو احکامِ شریعت کی تبلیغ و دعوت، دین کی تجدید اور احیاء حتی کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے نظام کو جاری رکھنے کا منصب عطا کیا۔ ان امور کی انجام دہی کارِ نبوت ہے اور یہی منصب رسالت ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے فرائض منصبی کے دو حصے ہیں جو اس طرح ہیں:
1۔ حضور ﷺ امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا فریضہ ادا کرتے یعنی آپ ﷺ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع فرماتے۔
2۔ حضور ﷺ نے اپنی امت کے لیے پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام فرمایا۔ اب جس شے کو آپ ﷺ حلال کہہ دیں وہ حلال ہے اور جس کو حرام کہہ دیں وہ حرام ہے۔ چیزوں کو حلال اور ناپاک کو حرام قرار دینا، یہ نبی کا تشریعی اختیار ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
43۔
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ16455
بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہےاور انھیں پاک کرتااور انھیں کتاب و حکمت سکھاتاہے۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں کارِ نبوت کی انجام دہی کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کے درج ذیل چار فرائض مذکور ہیں:
1۔ تلاوتِ آیات
2۔ تزکیۂ نفوس
3۔ تعلیمِ کتاب
4۔ تعلیمِ حکمت
حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد یہ چاروں اجزائے نبوت آپ ﷺ کی امت کو منتقل کر دیئے گئے ہیں۔ جب نبوت کے کام اس طرح جاری وساری ہے تو پھر اور کسی نبوت کا تصور کیا جائے ۔
مزید تفاسیر کے لئے
44۔
فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ3556
تو رسولوں پر کیا ہے مگر صاف پہونچا دینا ۔
مختصر وضاحت ۔اس آیۂ کریمہ میں پیکرانِ رسالت کے بھیجے جانے کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے ان کا مقصدِ وحید پیغام حق لوگوں تک پہنچانا تھا جبکہ ہمارے آقا و مولا حضور نبی رحمت ﷺ کے سپرد صرف ابلاغِ مبین نہیں بلکہ ان مقاصدِ خمسہ کی تکمیل بھی ہے جو آپ ﷺ کو عطا کیے گئے۔ نبوت محمدی ﷺ کے ان پانچ مقاصد کی اس طرح ہے:نبوت ما قبل کی تنسیخ،تکمیل احکام شریعت،تخفیف احکام شریعت،تبلیغ احکام شریعت اور تنفیذ احکام شریعت ،حضور نبی اکرم ﷺ کے مقاصدِ بعثت کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے وہ سارے کام سرانجام دیئے جو یکے بعد دیگرے انبیاء کرام علیھم السّلام اپنے فریضہ نبوت کی بجاآوری کے لیے انجام دیتے رہے۔ جس سے دین کا کام بہمہ وجوہ مکمل ہو گیا حضور ﷺ کی نافذ کردہ شریعت نے دین پر عمل پیرا ہونا ہر فردِ امت کے لیے آسان کر دیا اور کوئی کام ایسا نہ رہا جس کی تکمیل احکامِ شریعت کی تعمیل کے لیے ضروری ہو۔ اس طرح فریضہ تبلیغ کا جو کام حضور نبی اکرم ﷺ کے ذمہ تھا اس کو آپ ﷺ نے مکمل کیا اور بعد میں اسے مداومت کے ساتھ جاری رکھنے کا ذمہ امت کے سپرد کر دیا حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد چونکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے اس لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے بعد فرائض نبوت بتمام و کمال سرانجام دینے کے لیے وہ امور جن کو غیر نبی امتی انجام دے سکتے تھے انہیں سونپ دیے اور انہیں حکم دیا کہ وہ انہیں مداومت کے ساتھ جاری رکھیں تاکہ دین اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے تبلیغ و تنفیذ شریعت اور دیگر دینی امور کی ذمہ داری امت کے صحیح الفہم اور صائب الرائے افراد کے سپرد کر دی گئی چونکہ بعثت نبوی کے مقاصد پورے اور مکمل ہو چکے ہیں اس لیے حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد اب قیامت تک کسی نئے نبی کی مطلقاً ضرورت نہ رہی۔
مزید تفاسیر کے لئے
45۔
فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْۤ اَنْزَلْنَاؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ857
تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول اور اس نور پر جو ہم نے اتارا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
مختصر وضاحت ۔ اس آیت کریمہ میں رَسُوْلِهٖ سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات مراد ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنی الوہیت کے بعد آپ ﷺ ہی کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ یہ حکم قیامت تک آنے والے ہر ہر انسان کے لیے ہے۔ کوئی زمانہ اور کوئی فردِ بشر اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا آپ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی پر ایمان لانے کا حکم نہ دینا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ آخری نبی ہیں۔
مزید تفاسیر کے لئے
46۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ6258
ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر یقین لائے۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بعد سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والوں کو مومن کہا گیا ہے۔ قیامت تک وہی شخص مومن ہو گا جو ایمان باللہ کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لائے گا۔
مزید تفاسیر کے لئے
47۔
فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠15759
تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُتراوہی بامراد ہوئے۔
مختصر وضاحت ۔اس آیتِ کریمہ میں تعلق بالرّسول ﷺ کی درج ذیل چار بنیادیں اور ان کی قرآنی ترتیب ملاحظہ فرمائیں:
1۔ ایمان بالرسول ﷺ
2۔ تعظیمِ رسول ﷺ
3۔ نصرتِ رسول ﷺ
4۔ اتباعِ رسول ﷺ
تعلق کی پہلی دو جہتوں (ایمان اور تعظیم) میں مرکز و محور حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے جبکہ تعلق کی نوعیت ذاتی، حبیّ اور ادبی ہے، جبکہ دوسری دو جہتوں (نصرت و اتباع) میں مرکز و محور حضور ﷺ کا دین اور آپ ﷺ کی تعلیمات ہیں اور تعلق کی نوعیت تعلیماتی، عملی اور اتباعی ہے۔ قرآن مجید نے چار جہات تعلق کو ایک خاص ترتیب سے بیان کرکے یہ واضح فرما دیا ہے کہ اسلام میں اوّلاً حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی سے محبت وادب اور اعتماد و اعتقاد کا تعلق استوار ہوتا ہے اور بعد میں نتیجتاً آپ ﷺ کے دین اور تعلیمات سے عمل و اطاعت اور اتباع و نصرت کا تعلق پیدا ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ جو لوگ آپ ﷺ کے ساتھ ان چار جہات سے تعلق کو مضبوط کر لیں گے فلاحِ دارین انہی کا مقدر بنے گی۔ یہ تعلق حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کی امت کے درمیان قیامت تک قائم ہے، کسی ایک لمحہ کے لیے بھی منقطع نہیں ہو سکتا۔ آیت کریمہ میں آپ ﷺ کے بعدکسی شخص کے لیے اس قسم کے تعلق کا حکم نہیں دیا گیا اور نہ ہی آپ ﷺ کے بعد کسی شخص کے ساتھ اس چہار جہتی تعلق استوار کرنے پرکامیابی کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہ اس بات کا واضح اعلان ہے کہ آپ ﷺ سلسلۂ نبوت کے خاتم ہیں، ایمان بالرسول، تعظیم رسول، نصرت رسول اور اتباع رسول کی تمام حدیں اور تمام تقاضے آپ ﷺ کی ذات پر ختم ہو چکے۔ لہذا آپ کے بعد جو کوئی بھی اپنے لیے ان تقاضوں کو ثابت کرنے کی کوشش کرے وہ کذّاب ہو گا۔
مزید تفاسیر کے لئے
48۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌۚۙ2860
اے ایمان والواللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ اپنی رحمت کے دو حصّے تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے نور کردے گا جس میں چلو اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
مختصر وضاحت ۔ اس آیت کریمہ میں رحمت و بخششِ خداوندی کا وعدہ صرف حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے پر کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کے بعد کسی شخص پر ایمان لانے پر رحمت و بخشش کا وعدہ نہیں کیا گیا کیونکہ آپ ﷺ پر انبیاء کی آمد کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے، آپ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی آمد کا سرے سے امکان ہی نہیں۔ اگر کوئی رحمت و بخشش خداوندی کا طلبگار ہے تو اسے صرف نبوت و رسالت محمدی ﷺ پر ایمان لانا ہو گا۔
مزید تفاسیر کے لئے
49۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَۙ10،1161
اے ایمان والو کیا میں بتادوں وہ سودا گری جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے۔ایمان رکھو اللہ اور اس کے رسول پر اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ ایمان باللہ کے بعد صرف حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان رکھنا ہی اخروی عذاب سے بچنے کے لیے کافی ہے۔ اگر امت میں آپ ﷺ کے بعد کسی نبی کی آمد متوقع ہوتی تو ضرور بالضرور اس پر ایمان لانے کو بھی اخروی عذاب سے نجات کا لازمہ قرار دیا جاتا۔ چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی آمد متوقع نہیں اس لیے اخروی عذاب سے چھٹکارے کے لیے فقط آپ ﷺ پر ایمان ہی کو کافی قرار دیا گیا۔
مزید تفاسیر کے لئے
50۔
اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِؕ-فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِیْرٌ762
اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی راہ(میں) کچھ وہ خرچ کرو جس میں تمہیں اَوروں کا جانشین کیا تو جو تم میں ایمان لائے اور اس کی راہ میں خرچ کیا اُن کے لیے بڑا ثواب ہے۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں بھی ایمان باللہ کے بعد صرف حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے کو اجرِ کبیر کے حصول کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی نبی کا آنا مقدر ہوتا تو اس پر ایمان لانے کو بھی حصول اجر کا ذریعہ قرار دیا جاتا۔
مزید تفاسیر کے لئے
51۔
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۙ-كَفَّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ اَصْلَحَ بَالَهُمْ263
اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور اس پر ایمان لائے جو محمّد پر اتارا گیا اور وہی ان کے رب کے پاس سے حق ہے اللہ نے ان کی بُرائیاں اُتار دیں اور اُن کی حالتیں سنوار دیں۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں صرف ان لوگو علیہ السلام کے گناہ مٹائے جانے کا وعدہ خداوندی ہے جو اس کتاب پر ایمان لائے جو حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل کی گئی۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد بھی کسی کو نبی بنا کر بھیجنا ہوتا اور اس پر کوئی کتاب وغیرہ نازل کرنا ہوتی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس پر ایمان لانے والے کے لیے بھی گناہ مٹانے کا وعدہ فرماتا چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی آمد خالی از امکان تھی اس لیے یہاں اس کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس آیت کریمہ میں ایمان کو بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے، لهٰذا قیامت تک اہلِ ایما ن صرف وہی ہوں گے جو اس کتاب پر ایمان لائیں گے جو حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل کردہ کتاب یعنی قرآن حکیم پر ایمان لائیں گے۔ اس کتاب حکیم کے بعد کسی شخص پرنزولِ کتاب کا دعویٰ باطل ہوگا اور اس پر ایمان لانے والا کافر ہو گا۔
مزید تفاسیر کے لئے
52۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ-فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠5964
اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اُسے اللہ و رسول کے حضور رجوع کرو اگر اللہ و قیامت پر ایمان رکھتے ہو (۱۶۹) یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مطاع مطلق قیامت تک نبی کریم ﷺ کی ذات کو قرار دیا ۔
مزید تفاسیر کے لئے
53۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ2065
اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔
مختصر وضاحت ۔ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری فرض ہے، قرآنِ پاک کی متعدد آیات میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم دیا گیا بلکہ رب تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا اورا س پر ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی پرعذاب جہنم کا مژدہ سنایا ،لہٰذا جس کام کا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم فرمایا اسے کرنا اور جس سے منع فرمایا اس سے رک جانا ضروری ہے،یہاں اہل ایمان کو اطاعت الہی اور اطاعت مصطفی ﷺ کا حکم دیا گیا۔
مزید تفاسیر کے لئے
54۔
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ4666
اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔
مختصر وضاحت ۔اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم ہمیشہ کیلئے ہے۔67
مزید تفاسیر کے لئے
55۔
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ8068
جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا ۔
مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا آیات کریمہ واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ مطاع مطلق اللہ اور رسول ﷺ کی ذات ہے۔ ان دونوں کی اطاعت فی الحقیقت مستقل، دائمی، حتمی، قطعی اور غیر مشروط ہے اس لیے فرمایا اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو اور اس کے بعد جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کی جائے۔
استدلال؛آیت میں لفظ یُطِع مضارع کا صیغہ ہے۔ عربی زبان میں تینوں زمانوں کے لیے دو صیغے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک ماضی اور دوسرا حال اور مستقبل کے لیے۔ ماضی وہ زمانہ ہوتا ہے جو بیت گیا اور حال وہ زمانہ ہوتا ہے جو کبھی گزرتا نہیں یعنی ایسا وقت جو ہر گھڑی قائم رہتا ہے اور کبھی ختم نہیں ہوتا۔ مستقبل کا معنی ہے آئندہ آنے والا۔ ہم آئندہ کل کو مستقبل کہتے ہیں اور جب اس میں داخل ہوتے ہیں تو اس سے اگلا کل ہمارے لیے مستقبل ہو جاتا ہے، لهٰذا جس طرح زمانہ حال کبھی ختم نہیں ہوتا اسی طرح زمانہ مستقبل بھی کبھی ختم نہیں ہوتا یعنی ان دونوں زمانوں میں دوام کارفرما ہے۔ اس آیت کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کے لیے مضارع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس میں دوام اور ہمیشگی کا معنی پایا جاتا ہے کیونکہ فعل مضارع بیک وقت حال اور مستقبل یعنی دونوں زمانوں پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ لفظ ’یطیع‘ کا معنی و مفہوم یہ ہو گا کہ جو کوئی اس رسول ﷺ کی اطاعت کرتا ہے یا کرے گا اس کی کوئی حد نہیں کہ کب تک کرے گا بلکہ عموم کا مفہوم اس پر دلالت کرتا ہے کہ جب تک کسی نہ کسی شکل میں نبی کی اطاعت کرنے والے موجود ہوں گے تب تک نبی ﷺ کی نبوت و رسالت دائماً قائم رہے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ لفظ یطیع فعل مضارع میں دوام اور ہمیشگی کا معنی پایا جاتا ہے، اس لیے اطاعت رسول ﷺ کا حکم بھی دوام اور ہمیشگی کا معنی لیے ہوئے ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر زمانہ میں بلافصل ہو گی۔ جس طرح رسالت محمدی ﷺ کا آفتاب دورِ صحابہ میں پوری آب و تاب سے چمکتا تھا اسی طرح آج بھی چمک رہا ہے اور اسی طرح قیامت تک چمکتا رہے گا۔ چنانچہ قیامت تک ہر طالب ہدایت آفتاب رسالت محمدی ﷺ سے ضوگیر رہے گا، جس کے ہوتے ہوئے کسی اور نبی کا تصور کرنا معاذ اللہ آپ ﷺ کی رسالت و نبوت کا انکار ہے جو صریحاً کفر ہے۔
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ میں لفظ رسول پر ال لگا کر اسے معرّف باللام بنایا گیا ہے۔ عربی زبان میں کوئی لفظ معرّف باللام ہو کر معرفہ بن جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں الرّسول سے عام رسول نہیں بلکہ خاص رسول مراد ہے اور وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی ہی ہے۔ اب قیامت تک صرف آپ ﷺ کی ذات مطاعِ مطلق ہے
مزید تفاسیر کے لئے
56۔
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ3669
اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو اُنہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نبی ﷺ کی اطاعت کو فرض قرار دیا جس میں کسی کو چون چرا کرنے کی قطعا اجازت نہیں ہے ۔
مزید تفاسیر کے لئے
57۔
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا6570
تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرمادو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں ۔
مختصر وضاحت ۔ حبیب ِ خدا، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کو تسلیم کرنا فرضِ قطعی ہے۔ جو شخص تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا وہ کافر ہے، ایمان کا مدار ہی اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کو تسلیم کرنے پر ہے۔جس طرح قرآن میں مذکور ہر حکمِ الٰہی قیامت تک اہل ایمان کے لیے واجب الاطاعت ہے اسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ کا حکم بھی قیامت تک ان کے لیے حجت ہے۔ جب قرآن فقط حکم رسالت مآب ﷺ کو قیامت تک حجت اور مفروض الاطاعت قرار دے رہا ہے توپھر کسی اور کا حکم آپ ﷺ کے بعد کس طرح حجت آ سکتا ہے؟ اگر اس طرح کے امکان کو بالفرض تسلیم کرلیا جائے تو پھر حکم محمدی ﷺ کی قطعیت باقی نہیں رہتی اور یہ نص قرآنی کے خلاف ہے، نیز اس طرح کی دوئی سے محبت میں یکتائی نہیں رہتی اور وہ تقسیم ہو جاتی ہے۔ قرآن کا منشا اس امر کا متقاضی ہے کہ ساری وفاداریاں اور محبتیں رسول اللہ ﷺ سے محبت اور وفا پر قربان کر دی جائیں کیونکہ اس باب میں حضور نبی اکرم ﷺ تو والدین سے محبت کو بھی اپنی محبت سے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتے حتی کہ اولاد اور خود اپنی ذات سے محبت بھی رسول ﷺ کی محبت میں شریک نہیں ہو سکتی۔
مزید تفاسیر کے لئے
58۔
اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ5171
مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول اُن میں فیصلہ فرمائے تو عرض کریں ہم نے سُنا اور حکم مانا او ریہی لوگ مراد کو پہنچے۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس رسول کی اطاعت کی دعوت دی گئی ہے وہ صرف حضور نبی اکرم ﷺ ہیں۔ اہل ایمان آپ ﷺ ہی کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور آپ ﷺ ہی کی اطاعت گزاری میں ان کے لیے فلاح کا مژدہ ہے۔ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
مزید تفاسیر کے لئے
59۔
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ5272
اور جو حکم مانے اللہ اور اس کے رسول کا اور اللہ سے ڈرے اور پرہیزگاری کرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں بھی اطاعت الٰہی کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کو حصول مراد کا وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔ اگر حضور ﷺ کے بعد بھی کسی نبی کا آنا مقدر تھا تو ضرور اس کی اطاعت کو بھی شامل کیا جاتا۔
مزید تفاسیر کے لئے
60۔
قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَۚ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْهِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْؕ-وَ اِنْ تُطِیْعُوْهُ تَهْتَدُوْاؕ-وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ5473
تم فرماؤ حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا پھر اگر تم منہ پھیرو تو رسول کے ذمہ وہی ہے جو اُس پر لازم کیا گیا اور تم پر وہ ہے جس کا بوجھ تم پر رکھا گیا اور اگر رسول کی فرمان برداری کرو گے راہ پاؤ گے اور رسول کے ذمہ نہیں مگر صاف پہنچا دینا۔
مختصر وضاحت ۔حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت قیامت تک کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ افراد امت آپ ﷺ کی اطاعت کرتے رہیں گے اور ہدایت پاتے رہیں گے۔
مزید تفاسیر کے لئے
61۔
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ5674
اور نماز برپا رکھو اور زکوٰۃ دو اور رسول کی فرمان برداری کرو اس اُمید پر کہ تم پر رحم ہو۔
مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا آیات میں اطاعتِ رسول کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے اور ان دونوں اطاعتوں میں تفریق اور انقطاع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جملہ انبیاء علیہم السلام میں صرف حضور ﷺ خاتم النبیین ہیں جن کی اطاعت قیامت تک مطلقاً واجب قرار دی گئی۔ مذکورہ بالاآیات میں صیغۂ امر سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ آپ ﷺ کی اطاعت کے وجوب کا ذکر ہے۔ ان آیاتِ بینات کی رو سے ان دونوں اطاعتوں کا وجوب دائمی ہے۔ ان دونوں میں تفریق نہیں کی جا سکتی۔ ایسا ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت تو جاری رہے اور مصطفی ﷺ کی اطاعت منقطع ہو جائے، اب قیامت تک اطاعتِ الٰہی کے ساتھ صرف حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت کی جائے گی۔ درمیان میں کوئی اور مطاع نہیں ہو سکتا۔
مزید تفاسیر کے لئے
62۔
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ6975
اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں صاف طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ صرف اطاعت مصطفی ﷺ اللہ کے انعا م یافتہ بندوں میں شمولیت کے لیے کافی ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
63۔
وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ7176
اور اللہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بےشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں رسول کی اطاعت سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ ہی کی اطاعت ہے۔ اسی اطاعت کی بدولت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم و کرم فرماتا ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
64۔
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا7177
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمان برداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ جو اطاعت مصطفی ﷺ کریگا اسی کو بڑی کامیابی نہیں ہوگی۔
مزید تفاسیر کے لئے
65۔
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبْهُ عَذَابًا اَلِیْمًا۠1778
اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے اللہ اسے باغوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں رواں اور جو پھر جائے گا اُسے دردناک عذاب فرمائے گا۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا کہ جو اطاعت نبی ﷺ اختیار کریگا وہی جنت میں داخل ہوگا تو اب کسی اور کی اطاعت دخول جنت کا سبب نہیں بن سکتی۔
مزید تفاسیر کے لئے
66۔
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ كَثِیْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ ﱟ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ ،یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ15،1679
اے کتاب والو بے شک تمہارے پاس ہمارے یہ رسول تشریف لائے کہ تم پر ظاہر فرماتے ہیں بہت سی وہ چیزیں جو تم نے کتاب میں چھپا ڈالی تھیں اور بہت سی معاف فرماتے ہیں بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاباللہ اس سے ہدایت دیتا ہے اُسے جو اللہ کی مرضی پر چلا سلامتی کے راستے اور انہیں اندھیریوں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے اپنے حکم سے اور انہیں سیدھی راہ دکھاتا ہے ۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا کہ نبی ﷺ کی ذات کی بدولت لوگوں کو ایمان کی دولت اور ہدایت نصیب ہوتی ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
67۔
وَ اكْتُبْ لَنَا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَاۤ اِلَیْكَؕ-قَالَ عَذَابِیْۤ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُۚ-وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍؕ-فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَۚ156،15780
اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھلائی لکھ (ف۲۹۲) اور آخرت میں بے شک ہم تیری طرف رجوع لائے فرمایا میرا عذاب میں جسے چاہوں دوں اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہےتو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لیے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے امت سے بوجھ اور طوق قیود دور کرنے کا کی نسبت محض نبی ﷺ کی طرف کیں ہے ۔
مزید تفاسیر کے لئے
68۔
اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِۚ-فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَّ اَجْرٍ كَرِیْمٍ1181
تم تو اُسی کو ڈر سناتے ہو جو نصیحت پر چلے اور رحمٰن سے بے دیکھے ڈرے تو اُسے بخشش اور عزت کے ثواب کی بشارت دو۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ جس کی نصیحت پرعمل کیا جائیگا وہ ذات والا صرف نبی ﷺ کی ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
69۔
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ6482
اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) اللہ تمہیں کافی ہے اور یہ جتنے مسلمان تمہارے پیرو ہوئے۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا کہ اللہ تعالی کی مدد شامل حال جب ہی ہوتی ہے جب نبی ﷺ کی کامل اتباع کی جائے ۔
مزید تفاسیر کے لئے
70۔
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اسْتَجِيْبُوْا ِللهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِيْکُمْ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللهَ یَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْء وَقَلْبِهٖ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ2483
اے ایمان والو! جب (بھی) رسول (ﷺ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول (ﷺ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان (شانِ قربتِ خاصہ کے ساتھ) حائل ہوتا ہے اور یہ کہ تم سب (بالآخر) اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔
مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا ارشادات ربّانی میں اتباع و اطاعت رسول ﷺ کے حوالے سے اس نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ دنیوی و اخروی نجات کا دارومدار حضور نبی اکرم ﷺ کی غیر مشروط غلامی اور فرماں برداری پر ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات ستودہ صفات نہ صرف مطاعِ مطلق ہے بلکہ مدار نجات بھی فقط آپ ﷺ ہی کی اطاعت و اتباع ہے۔ دنیوی و اخروی فوزو فلاح اور کامیابی کا انحصار صرف آپ ﷺ کی غلامی اور آپ ﷺ کی ذات سے کامل وابستگی ہے۔ جو آپ ﷺ کے در کا گدا ہے وہی زمانے کا تاجدار ہے۔ بارگاهِ الٰہی سے رحم وکرم اور مغفرت و بخشش کی خیرات آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری سے نصیب ہوتی ہے۔ بندہ انعام یافتہ ہوکر انبیا ئ، صدیقین، شہداء اور صالحین کے زمرۂ لایحزنون میں شامل ہو جاتا ہے۔ اطاعت و اتباع مصطفی ﷺ دوزخ سے نجات کا پروانہ اور جنت میں داخلے کا ٹکٹ ہے۔ روز قیامتِ میدان محشرمیں بھی آپ ﷺ ہی کی شفاعت نجات کا ذریعہ بنے گی اور آپ ﷺ کہیں بھی اپنی گنہگار امت کو فراموش نہیں فرمائیں گے۔ معلوم ہوا کہ نجات کے لیے انبیائے سابقین پر ایمان کے ساتھ اطاعت و اتباع رسول ﷺ ہی لازمی و لابدی اور کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کے صلے میں مغفرت و بخشش اور جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ اگراس امت میں حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی ظلی یا بروزی بھی آنا ہوتا تو ضروری تھاکہ نجات کے لیے ا س کی اطاعت کو شرط ٹھہرایا جاتا۔ قرآن حکیم نے مدار نجات چونکہ صرف اطاعت واتباعِ مصطفی ﷺ کو قرار دیا ہے لهٰذا آپ ﷺ کے بعد کسی ظلی و بروزی نبی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
مزید تفاسیر کے لئے
71۔
وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبيَّنَ لَهُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِهٖ جَھَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيْرًا11584
اور جو رسول کا خلاف کرے بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اُسے دوزخ میں داخل کریں گے اور کیا ہی بُری جگہ پلٹنے کی۔
اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ جو اطاعت مصطفی ﷺ سے اعراض کریگا اس کا ٹھکانا صرف جھنم ہے یعنی کہ اب جس کی اطاعت مطلقہ جس کی ہوگی وہ صرف اور صرف نبی علیہ السلام کی ذات ہے جس طرح فرمایا گیا کہ عیسی علیہ السلام بھی جب قرب قیامت تشریف لائینگے تو بھی شریعت محمدی ﷺ کے پیرو ہونگے ۔
مزید تفاسیر کے لئے
72۔
لَوْ یُطِيْعُکُمْ فِيْ کَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ785
بہت معاملوں میں اگر یہ تمہاری خوشی کریں (ف۱۱) تو تم ضرور مشقت میں پڑو۔
مزید تفاسیر کے لئے
73۔
یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰـلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا6686
جس دن اُن کے منہ اُلٹ اُلٹ کر آ گ میں تلے جائیں کہتے ہوں گے ہائے کسی طرح ہم نے اللہ کا حکم مانا ہوتا اور رسول کا حکم مانا ہوتا۔
مزید تفاسیر کے لئے
74۔
وَاَطِيْعُوْا اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِيْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ4687
اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور آپس میں جھگڑو نہیں کہ پھر بزدلی کرو گے اور تمہاری بندھی ہوئی ہوا جاتی رہے گی اور صبر کرو بےشک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔
مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالاآیات کریمہ میں مطاعِ مطلق حضور نبی اکرم ﷺ کی مخالفت اور آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع سے روگردانی کرنے والے کو کڑی وعید سنائی گئی ہے۔ قرآن حکیم نے امت پر واضح فرما دیا ہے کہ آپ ﷺ کی حکم عدولی کرنے والے اور آپ ﷺ کی راہ ہدایت کو چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرنے والے کا ٹھکانا دوذخ ہے۔ جس طرح اطاعت و اتباعِ مصطفی ﷺ اور جنت کے درمیان کسی اور کی اطاعت شرط نہیں اسی طرح آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع سے روگردانی پر دوزخ کے عذاب سے کوئی کذّاب نبی نہیں بچا سکتا۔
مزید تفاسیر کے لئے
75۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ3188
اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
مختصر وضاحت ۔اس آیۂ کریمہ میں سرکار دوجہاں ﷺ کی اتباع کو محبتِ الٰہی کا زینہ قرار دیا گیا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب ﷺ کی اطاعت و پیروی سے اپنی محبت کو مشروط کر دیا۔ مذکورہ بالا ارشاد خداوندی کا روئے خطاب حضور نبی اکرم ﷺ کی معرفت عہد نبوی ﷺ کے مسلمانوں ہی سے نہیں ہماری طرف بھی ہے اور ہمارے بعد آئندہ آنے والی نسلوں کی طرف بھی۔ گویا فرمانِ خداوندی کے مطابق حضور نبی اکرم ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ لوگو! اللہ تعالیٰ سے محبت اور دوستی کرنا چاہتے ہو تو آؤ میری غلامی اختیار کر لو۔ وہ حکم جو کل صحابہ کرام کے لیے تھا اس کا اطلاق آج ہم پر بھی ہوتا ہے، جب تک حضور نبی اکرم ﷺ کی غلامی و اتباع کرنے والے رہیں گے تب تک حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اور آپ ﷺ کی اتباع و اطاعت کا حکم باقی رہے گا۔
مزید تفاسیر کے لئے
76۔
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ2189
بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے ۔
مختصر وضاحت ۔حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کو تمام افرادِ امت کے لیے اسوئہ حسنہ یعنی بہترین نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کے وصال فرما جانے کے بعد بھی صاحبانِ حال اہل نظر یوں محسوس کرتے ہیں جیسے خود رسول اللہ ﷺ کی ذات ان کے درمیان موجود ہے۔ جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حاضر و ناظر رسول ﷺ ہم میں موجود ہے تو پھر کسی نئے نبی کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے؟۔
مزید تفاسیر کے لئے
77۔
لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءوْفٌ رَّحِيْمٌ12890
بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول (ف۳۰۷) جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔
مزید تفاسیر کے لئے
78۔
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّهٰتُهُمْ691
یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے اور اس کی بیبیاں اُن کی مائیں ہیں۔
مختصر وضاحت ۔اوپر درج کردہ آیات میں امت اور حضور ﷺ کے درمیان کارفرما خصوصی ربط اور تعلق کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنی امت کے ساتھ اس قدر گہرا تعلق قائم ہوا کہ سابقہ انبیاء علیھم السّلام میں سے کسی نبی کا انپی امت کے ساتھ ایسا گہرا تعلق نہ تھا۔ آیاتِ مذکورہ میں آپ ﷺ کے اسی تعلّق بالأمّۃ کو بیان کیا گیا ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
79۔
وَکَيْفَ تَکْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَيْکُمْ اٰیٰتُ اللهِ وَفِيْکُمْ رَسُوْلُهٗ10192
اور تم کیونکر کفر کرو گے تم پرتو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول تشریف فرماہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
80۔
وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ3393
اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو ۔
مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا آیات میں پیغمبر آخر و اعظم ﷺ کی امت کے اندر دائمی موجودگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ جس طرح حیات ظاہری میں صحابہ کے درمیان موجود تھے اسی طرح قرآن کی نص کے مطابق آپ ﷺ ہر دور میں امت کے لیے راحتِ جاں اور طمانیت قلب کا باعث ہیں کیونکہ قرآن کا یہ مژدئہ جانفزا فقط صحابہ کرام کے لیے ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی تمام انسانیت کے لیے ہے۔ حضور ختمی مرتبت ﷺ کا وجود مسعود آج بھی بدستور امت کے لیے مشکلات و مصائب کے چلتے ہوئے تیروں کی یلغار میں ڈھال کا کام دیتا ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
81۔
ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا کُلَّمَا جَآء اُمَّةً رَّسُوْلُھَا کَذَّبُوْهُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَھُمْ بَعْضًا وَّجَعَلْنَاھُمْ اَحَادِيْثَ فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ4494
پھر ہم نے اپنے رسول بھیجے ایک پیچھے دوسرا جب کسی اُمت کے پاس اس کا رسول آیا انہوں نے اسے جھٹلایا تو ہم نے اگلوں سے پچھلے ملادئیے اور انہیں کہانیاں کر ڈالا تو دور ہوں وہ لوگ کہ ایمان نہیں لاتے۔
مختصر وضاحت ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پہلی قوموں میں انبیاء علہیم السلام آتے تو ان کی تکذیب کی وجہ سے جو لوگوں کا وتیرہ بن چکی تھی قلیل تعداد میں لوگ ایمان لے آتے۔ جب ایک نبی چلا جاتا تو پھر دوسرا نبی آتا۔ اس طرح انبیاء کے یکے بعد دیگرے آنے کا سبب یہ تھا کہ ان قوموں کو پیغام توحید سنانے کی مسلسل ضرورت رہتی تھی مگر حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ کثیر تعداد میں لوگ ایمان لائے اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کی تعداد میں بتدریج معتدبہ اضافہ ہوتا رہا اور قرائن بتاتے ہیں کہ یہ اضافہ قیامت تک مزید ہوتا رہے گا۔ پیغام توحید اور نور قرآن کی بنا پر دُنیا سے کفر و شرک اور ضلالت و گمراہی کا خاتمہ ہوتا رہے گا۔ چونکہ انبیاء علیھم السّلام کے آنے کا مقصد حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے ساتھ پورا ہو چکا ہے اور پوری دنیا میں مسلمان کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اب کسی اور نبی کی ضرورت نہیں۔
مزید تفاسیر کے لئے
82۔
فَکَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَھِيْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَھِيْدًا4195
تو کیسی ہوگی جب ہم ہر اُمت سے ایک گواہ لائیں (ف۱۲۳) اور اے محبوب تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں ۔
مختصر وضاحت ۔متذکرہ بالا آیت کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی منفرد اور بے مثال شان کا ذکر کیا گیا ہے جو پہلے گزرنے والی امتوں پر شاہد ہونے سے متعلق ہے۔ ہر نبی اپنی امت کے اعمالِ نیک و بد کے لیے شاہد بنایا گیا ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
83۔
وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا6496
اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت مقدسہ میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے گنہگاروں کو یہ مژدۂ جانفزا سنایا گیا ہے کہ وہ مایوس نہ ہوں۔ ان کی نجات اور مغفرت کا وسیلہ رسولِ محتشم ﷺ کی ذات ہے جس کی وساطت سے اگر توبہ کی جائے تو اللہ اسے ضرور قبول فرمائے گا۔ اس حوالے سے ایک ایمان افروز روایت کا تذکرہ خالی از فائدہ نہ ہو گا۔
مزید تفاسیر کے لئے
84۔
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰٓی عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللهَ شَیئًا وَسَیَجْزِیَ اللهُ الشّٰکِرِيْن14497
اورمحمدتو ایک رسول ہی ان سے پہلے اور رسول ہوچکے تو کیا اگر وہ انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جو اُلٹے پاؤں پھرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا اور عنقریب اللہ شکر والوں کو صلہ دے گا ۔
مختصر وضاحت ۔یہ آیت کریمہ وصال کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت کے غیر منقطع ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ بعد از وصال بھی امت کے نبی ہیں۔ آپ ﷺ کی وفات سے آپ ﷺ کی نبوت و رسالت منقطع نہیں ہوئی۔ امت پر آپ ﷺ کی اطاعت واتباع تا قیامت اسی طرح واجب ہے جس طرح آپ ﷺ کی حیات ظاہری میں واجب تھی۔ اب قیامت تک آپ ﷺ ہی کی نبوت و رسالت کا سکہ چلے گا اور آپ ﷺ کے دین، اسلام ہی کی پیروی ہو گی۔ نہ تو کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ ہی کسی نئے دین یا شریعت کی پیروی کی ہوگی۔ اگر کوئی راهِ ہدایت سے منحر ف ہو جائے اور دین حق سے پھر جائے تو وہ ناکام و نامراد ہوگا۔
مزید تفاسیر کے لئے
85۔
کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ11098
تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
مختصر وضاحت ۔اس آیہ کریمہ میں حضورخیر الانام علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی امت کو اللہ تعالیٰ نے خیر الامم (بہترین امت) کے لقب سے سرفراز فرمایا اور جس طرح حبیبِ خدا ﷺ کو آخرالانبیاء والرسل اور افضل الخلائق ہونے کا شرف حاصل ہے، اسی طرح آپ ﷺ کی امت کے سر پر خیرالامم کا تاج سجا دیا۔ مذکورہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر میں خود سرور کائنات ﷺ نے فرمایا:إِنَّکُمْ تُتِمُّوْنَ سَبْعِيْنَ أُمَّةً أَنْتُمْ خَيْرُھَا وَأَکْرَمُھَا عَلَی اللهِ۔تم ستر امتوں کو مکمل کرنے والے ہو اور اللہ کے نزدیک ان سب سے بہتر اور بزرگ ہو99
مزید تفاسیر کے لئے
86۔
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَيْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ104100
اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بُری سے منع کریں اور یہی لوگ مُراد کو پہنچے۔
مختصر وضاحت ۔اس آیہ کریمہ میں بین السطور یہ نکتہ بیان ہوا ہے کہ سلسلہ نبوت ختم ہونے کے بعد دعوت و تبلیغ دین کی ذمہ داریاں افرادِ امت کو سونپ دی گئی ہیں۔ اب اس میں سے ایک مخصوص جماعت وہی فریضہ سرانجام دے گی جو حینِ حیات حضور ﷺ کے ذمے تھا۔ فریضہ تبلیغ جو حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے انبیاء کرام سرانجام دیتے تھے، سلسلہ نبوت ختم ہونے کے بعد اب آپ ﷺ کی امت کو سونپ دیا گیا جبکہ اس سے قبل صاحبِ شریعت نبی کے رخصت ہونے کے بعد دوسرا نبی آتا جو صاحب شریعت نبی کی تبلیغ اور اصلاح کا کام سرانجام دیتا، چونکہ حضور ﷺ کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا اس لیے آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی امت کو یہ فریضۂ نبوت سونپ دیا گیا۔
مزید تفاسیر کے لئے
87۔
وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسیٰٓ اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهٖ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ51101
اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ فرمایا پھر اس کے پیچھے تم نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی اور تم ظالم تھے۔
مختصر وضاحت ۔پہلی اُمتوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے جو مختلف انبیاء کرام مبعوث فرمائے وہ اُنہیں پیغام حق دیتے رہے، جب ایک نبی دُنیا سے تشریف لے جاتا تو اس کی اُمت گمراہ ہو کر کفر و شرک میں مبتلا ہو جاتی بعض دفعہ ایک نبی کی موجودگی میں بھی امت گمراہ ہو جاتی جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حینِ حیات یہ دیکھنے میں آیا کہ ان کی اُمت نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ اسی طرح حضرت عزیر علیہ السلام کی قوم نے ان کو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نصاریٰ نے اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنا شروع کر دیا، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عَزَيْرُ ابْنُ اللهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِيْحُ ابْنُ اللهِ۔102 اور یہود نے کہا: عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا: مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔تاریخِ انبیاء کے مطالعہ سے پتا چلتاہے کہ سابقہ امتیں وقتا فوقتا شرک و گمراہی میں مبتلا ہوتی رہیں جس کی وجہ سے سلسلہ نبوت کا جاری رہنا ناگزیر ہو گیا جبکہ حضور ﷺ کی تشریف آوری کے بعد معاملے کی صورت یکسر بدل گئی۔ اس لیے کہ سلسلۂ نبوت اپنے اختتام کو پہنچ چکا اور امت کے سوادِ اعظم کے گمراہ ہونے کا اندیشہ باقی نہ رہا جیسا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی اُمت کے بارے میں فرمایا:إِنَّ أُمَّتِيْ لَا تَجْتَمِعُ عَلَی ضَلَالَةٍ فَإِذَا رَأَيْتُمِ اخْتِلَافاً فَعَلَيْکُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ۔میری اُمت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی پس اگر تم اختلاف دیکھو تو تم پرسوادِ اعظم کے ساتھ رہنا لازم ہے103
مزید تفاسیر کے لئے
88۔
ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ13،14104
اگلوں میں سے ایک گروہ ،اور پچھلوں میں سے تھوڑے ۔
مزید تفاسیر کے لئے
89۔
ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ39،40105
اگلوں میں سے ایک گروہ،اور پچھلوں میں سے ایک گروہ۔
مختصر وضاحت ۔اوپر درج کردہ آیتین کریمین میں امت محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام کو امتِ آخرین کا لقب دیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ امت سب امتوں کے آخر میں ظہور پذیر ہوگی اور اس کے بعد کوئی امت نہیں۔
مزید تفاسیر کے لئے
91۔
وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَآء تْهُمْ رُسُلُھُمْ بِـالْـبَيِّـنٰـتِ وَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ ثُمَّ جَعَلْنٰـکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ کَيْفَ تَعْمَلُوْنَ13106
اور بےشک ہم نے تم سے پہلی سنگتیں ہلاک فرمادیں جب وہ حد سے بڑھے اور ان کے رسول ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے اور وہ ایسے تھے ہی نہیں کہ ایمان لاتے ہم یونہی بدلہ دیتے ہیں مجرموں کو۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت میں اول یہ بتلایا گیا کہ پہلی امتیں شرک کی وجہ سےہلاک ہوئی اور امت محمدیہ ﷺ سب امتوں کی خلیفہ اور قائم مقام ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ امت آخر الامم ہے اس کے بعد نہ کوئی جدید نبی آئیگا اور نہ اس کی کوئی نئی امت پیداہوگی
مزید تفاسیر کے لئے
92۔
وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىٕفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ 165107
اور وہی ہے جس نے زمین میں تمہیں نائب کیا اور تم میں ایک کو دوسرے پر درجوں بلندی دی ۔
مختصر وضاحت ۔یہ آیت اس امت کو تمام امت کا خلیفہ اور آخر الامم ثابت کرتی ہیں ،چنانچہ علامہ نسفی تفسیر مدارک میں لکھتے ہے کہ : لان محمدا ﷺ خا تم النبیین فامتہ قد خلفت سائر الامم108
93۔
ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی اْلاَرْضِ39108
وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں اگلوں کا جانشین کیا۔
مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا آیات میں امت محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام کو زمین میں اممِ سابقہ کا خلیفہ کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ امت آخر الامم ہے اس کے بعد نہ تو کوئی نئی امت پیدا ہوگی اور نہ نیا نبی آئے گا۔ قیامت تک یہی امت تاجدار کائنات سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے دامن رحمت سے وابستہ رہے گی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ نہ دامن بدلے گا اور دامن گیر ہونے والے بدلیں گے۔
مزید تفاسیر کے لئے
94۔
اَلَمْ نُھْلِکِ الْاَوَّلِيْنَ ثُمَّ نُتْبِعُھُمُ الْاٰخِرِيْنَ16،17109
کیا ہم نے اگلوں کو ہلاک نہ فرمایا ،پھر پچھلوں کو ان کے پیچھے پہنچائیں گے۔
مختصر وضاحت ۔ان آیات میں اولین سے مراد پہلی امتوں کے کفاراور آخرین سے امتِ محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام کے کفار مراد ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امت محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام آخری امت ہے اور اس کا رسول آخری رسول ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
95:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْکُمْ شَهِيْدًا143110
اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔
مزید تفاسیر کے لئے
96۔
لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ78111
تاکہ رسول تمہارا نگہبان و گواہ ہو اور تم اور لوگوں پر گواہی دو ۔
مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو پہلی امتوں پر یہ شرف و فضیلت عطا فرمائی کہ اسے ان پر گواہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ جہاں اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کو افضل الخلائق، آخر الانبیاء والرسل اور شاہد و گواہ بنایا اور آپ ﷺ کے فیضانِ نبوت کے توسط سے آپ ﷺ کی امت کو خیرالامم اور آخر الامم ہونے کے ساتھ ساتھ امم سابقہ پر شاہد و گواہ بھی بنایا، اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو شاہدِ اقوامِ عالم بنانے کے بعد آپ ﷺ کی امت کو تمام سابقہ امتوں پر گواہ بناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میرا رسول جس طرح تمہیں دین کی تبلیغ کرتا ہے اور تمہارے حال پر گواہ ہے اس طرح تم اوروں کو تبلیغ کرکے ان پر گواہ ہو جاؤ گے۔ انہیں یہ باور کرایا گیا کہ جس طرح میرے نبی کی شہادت تمہارے اوپر ہے، بطورِ امتِ محمدی تمہاری شہادت باقی اقوام عالم پر ہوگی۔ سب سے برگزیدہ، سب سے بڑی، سب سے اعلیٰ و ارفع اور چنیدہ امت ہونے کے ناطے تم علمائِ بنی اسرائیل کے انبیاء جیسا کام سر انجام دوگے یعنی دینِ حق کی دعوت و تبلیغ کے ذریعے گمراہی اور ضلالت کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کے لیے تمہارا کام رشد و ہدایت کی شمعیں جلانا، ظاہر و باطن کے احوال کی اصلاح کرنا اور دین کو زندہ کرنا ہے جو پہلے انبیاء کا کام تھا۔ اب اس کی سرانجام دہی حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کے ذمے ہے جو امتِ وسط ہے۔ گویا سرتاجِ انبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ گمراہی کے اندھیروں میں سرگرداں لوگوں کے لیے رشد و ہدایت کی شمعیں جلا جلا کر تمہارے حوالے کر رہے ہیں اور تم ان شمعوں کو لے کر چار دانگ عالم میں روشنی پھیلانا تمہارا منصب ہوگا۔
مزید تفاسیر کے لئے
97۔
قُلْ قَدْ جَآءکُمْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِيْ بِالْبَيِّنٰتِ183112
تم فرما دو مجھ سے پہلے بہت رسول تمہارے پاس کھلی نشانیاں ۔
مزید تفاسیر کے لئے
98۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ42113
اور بے شک ہم نے تم سے پہلی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے ۔
مزید تفاسیر کے لئے
99۔
تَاللهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَـآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ63114
خدا کی قسم ہم نے تم سے پہلے کتنی امتوں کی طرف رسول بھیجےتو ۔
مزید تفاسیر کے لئے
100۔
کَمْ اَرْسَلْنَا مِنْ نَّبِیٍّ فِی الْاَوَّلِيْنَ6115
اور ہم نے کتنے ہی غیب بتانے والے (نبی) اگلوں میں بھیجے ۔
مزید تفاسیر کے لئے
101۔
فَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ184116
تو اے محبوب اگر وہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں تو تم سے اگلے رسولوں کو بھی تکذیب کی گئی ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
102۔
وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ34117
اور تم سے پہلے رسول جھٹلائے گئے۔
مزید تفاسیر کے لئے
103۔
فَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ4118
اور اگر یہ تمہیں جھٹلائیں تو بےشک تم سے پہلے کتنے ہی رسول جھٹلائے گئے ۔
مزید تفاسیر کے لئے
104۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْکَ وَمِنْھُمْ مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْکَ78119
اور بےشک ہم نے تم سے پہلے کتنے ہی رسول بھیجے کہ جن میں کسی کا احوال تم سے بیان فرمایا اور کسی کا احوال نہ بیان فرمایا۔
مزید تفاسیر کے لئے
105۔
وَ سْــٴَـلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَاۤ45120
اور ان سے پوچھو جو ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے۔
مزید تفاسیر کے لئے
106۔
وَکَذٰلِکَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِيْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ23121
اور ایسے ہی ہم نے تم سے پہلے جب کسی شہر میں کوئی ڈر سنانے والا بھیجا ۔
مزید تفاسیر کے لئے
107۔
وَلَقَدِ اسْتُهْزِء بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ32122
اور بےشک تم سے اگلے رسولوں پر بھی ہنسی کی گئی۔
مزید تفاسیر کے لئے
108۔
سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُّسُلِنَا77123
دستور ان کا جو ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے ۔
مزید تفاسیر کے لئے
109۔
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ25124
اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہ بھیجا مگر یہ کہ ہم اس کی طرف وحی فرماتے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو مجھی کو پوجو۔
مزید تفاسیر کے لئے
110۔
وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَ اِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَۚ-لَىٕنْ اَشْرَكْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ65125
اور بےشک وحی کی گئی تمہاری طرف اور تم سے اگلوں کی طرف کہ اسے سننے والے اگر تو نے اللہ کا شریک کیا تو ضرور تیرا سب کیا دھرا اَکارت جائے گا اور ضرور تو ہار میں رہے گا۔
مزید تفاسیر کے لئے
111۔
وما اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ 20126
اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب ایسے ہی تھے کھانا کھاتے۔
مزید تفاسیر کے لئے
112۔
كَذٰلِكَ یُوْحِیْۤ اِلَیْكَ وَ اِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَۙ-اللّٰهُ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ3127
یونہی وحی فرماتا ہے تمہاری طرف اور تم سے اگلوں کی طرف اللہ عزت و حکمت والا۔
مزید تفاسیر کے لئے
113۔
مَا یُقَالُ لَكَ اِلَّا مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَؕ-اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ وَّ ذُوْ عِقَابٍ اَلِیْمٍ43128
تم سے نہ فرمایا جائے گا مگر وہی جو تم سے اگلے رسولوں کو فرمایا گیاکہ بےشک تمہارا رب بخشش والا اور دردناک عذاب والا ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
114۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ60129
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جن کا دعوی ہے کہ وہ ایمان لائے اس پر جو تمہاری طرف اترا اور اس پر جو تم سے پہلے اترا ۔
مزید تفاسیر کے لئے
115۔
لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ162130
ہاں جو ان میں علم میں پکے اور ایمان والے ہیں وہ ایمان لاتے ہیں اُس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا۔
مختصر وضاحت ۔اوپر درج کردہ تمام کی تمام آیات میں تسلسل اور تکرار کے ساتھ ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے جو حضور ختمی مرتبت سیدنا محمد مصطفی ﷺ کی ختم نبوت سے متعلق ہے۔ اس امر میں کوئی التباس اور ابہام نہیں کہ قرآن نے ہر مقام پر آپ ﷺ سے پہلے آنے والے انبیاء کا ذکر بالالتزام کیا اور آپ ﷺ کے بعد کسی اور صاحبِ نبوت کی آمد کا اشارتاً اور کنایةً کوئی حوالہ نہیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی رسالت و نبوت اور وحی کا ذکر کیا تو مِنْ قَبْلِکَ فرمایا ۔ کسی ایک جگہ بھی مِنْ بَعْدِکَ نہیں فرمایا۔ اگر آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی آناہوتا تو قرآن ضرور اس کا ذکر کرتا چونکہ قرآن مجید میں حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی نبی کے آنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے ثابت ہوا کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
مزید تفاسیر کے لئے
116۔
قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ ﱘ عَلٰى بَصِیْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْؕ-108131
تم فرماؤیہ میری راہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں اور جو میرے قدموں پرچلیں دل کی آنکھیں رکھتے ہیں۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں علی وجہ البصیرت دعوت حق دینے والوں کا ذکر ہے۔ جو خود حضور نبی اکرم ﷺ ہیں اورآپ ﷺ کے اسوہ پر چلنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علمائے ربّانیین ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے مَنِ اتَّبَعَنِی سے صحابہ کرام اور علماءِ حق مراد لیے ہیں۔ یہ تفسیر منشاء ایزدی کے عین مطابق ہے۔ اگر اس امت میں کسی اور نبی کی گنجائش ہوتی تو ضرور پہلے اس کا ذکر کیا جاتا۔
مزید تفاسیر کے لئے
117۔
اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُؕ1132
اب آتا ہے اللہ کا حکم تو اس کی جلدی نہ کرو۔
مزید تفاسیر کے لئے
118۔
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ21133
لوگوں کا حساب نزدیک اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہیں۔
مزید تفاسیر کے لئے
119۔
فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةًۚ-فَقَدْ جَآءَ اَشْرَاطُهَاۚ18134
تو کاہے کے انتظار میں ہیں (ف۴۸) مگر قیامت کے کہ ان پر اچانک آجائے کہ اس کی علامتیں تو آہی چکی ہیں۔
مزید تفاسیر کے لئے
120۔
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ1135
پاس آئی قیامت اور شق ہوگیا چاند ۔
مختصر وضاحت ۔ ان آیات میں قیامت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بعثت نبی ﷺ کو علامت قیامت قرار دیا گیا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی پیدا ہونے والا نہیں ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
121۔
اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ لَّكُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ46136
وہ تو نہیں مگر تمہیں ڈر سنانے والے ایک سخت عذاب کے آگے ۔
مختصر وضاحت ۔ اس آیت مین عذاب شدید سے مراد قیامت ہے لہذا اس آیت کا حاصل بھی یہی ہے کہ آپ ﷺ اور قیامت کے درمیان کوئی نیا نبی پیدا ہونے والا نہیں ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث ذکر کی ہے کہ عن بریدۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ بعثت انا والساعہ جمیعا ان کادت لتسبقنی یعنی میں اور قیامت ساتھ بھیجے گئے ہیں (گویا )وہ تو مجھ سے بھی آگے ہوئی جاتی تھی ۔137
مزید تفاسیر کے لئے
122۔
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ33138
وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے پڑے برا مانیں مشرک۔
مزید تفاسیر کے لئے
123۔
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ28139
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اُسے سب دینوں پر غالب کرے اور اللہ کافی ہے گواہ ۔
مختصر وضاحت ۔اس قسم کی آیات میں لفظی اور معنوی اشتراک پایا جاتا ہے جو مضمون کی اہمیت کو اجاگر رہا ہے۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ معظم ﷺ کو ہدایتِ عامہ اور دینِ حق کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ وہ اس دین حق کو تما م ادیانِ عالم پر غالب کردے۔ یہ غلبہ اس امر کی دلیل ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی آمد تمام ادیان اور ان کے پیشوایان کی آمد کے بعد ہوئی اور یہ اس حقیقت پر شاہد عادل ہے کہ دینِ مصطفی ﷺ سب سے آخری دین ہے اور اس کے لانے والے سیدنا محمد مصطفیٰ علیہ التحیّۃ والثناء سب سے آخری رسول ہیں۔ ختم نبوت کی اس سے زیادہ واضح اور محکم دلیل اور کیا ہوسکتی ہے؟۔
مزید تفاسیر کے لئے
124۔
اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَؕ-قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ3140
اے لوگو اس پر چلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اُترا اور اسے چھوڑ کر اور حاکموں کے پیچھے نہ جاؤ بہت ہی کم سمجھتے ہو۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کے ضمن میں درج ذیل دو نکات اخذ ہوئے:
1۔ لوگوں پر صرف اس وحی کا اتباع واجب ہے جو ان کی طرف حضور نبی اکرم ﷺ پر اتاری گئی۔
2۔ اس کے علاوہ کسی دوسری وحی کے اتباع سے رکنا ہر شخص پر لازم ہے۔
اگر قرآن حکیم کے بعد کسی وحی کے نزول کا امکان ہوتا تو اس کی اتباع سے روک کر پابندی عائد نہ کی جاتی بلکہ اس کے اتباع کا حکم بھی دیاجاتا۔ جب قرآن کریم کے بعد کسی وحی کا اتباع کلیتاً ممنوع ہوا تو پھر دنیا میں نیا نبی بھیج کر اس پر نئی وحی اتارنا ایک امرِ لا یعنی ہوا جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ کی ذات پا ک ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
125۔
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاۚ-فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖۚ-وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌۚ-وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُؕ32141
پھر ہم نے اس کتاب (قرآن) کا وارث ایسے لوگوں کو بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چُن لیا (یعنی امّتِ محمدیہ ﷺ کو)، سو ان میں سے اپنی جان پر ظلم کرنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے درمیان میں رہنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھ جانے والے بھی ہیں، یہی (آگے نکل کر کامل ہو جانا ہی) بڑا فضل ہے۔
مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں قرآن حکیم کے وارثین کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ امت محمدی ﷺ کے مختلف گروہوں پر مشتمل ہے جن میں کوئی فرد بھی نبی نہیں۔ اگر حضور ﷺ کی امت میں اجرائے نبوت مقصود ہوتا تو وارثین کتاب میں سب سے پہلے امت کے ان افراد کا ذکر کیا جاتا جنہیں منصب نبوت دیاجانا تھا۔ ایسا نہ کیا جانا اس امر پر دلالت کرتا ہے آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں۔
مزید تفاسیر کے لئے
126۔
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ 97142
آپ فرما دیں جو شخص جبریل کا دشمن ہے (وہ ظلم کر رہا ہے) کیونکہ اس نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے (جو) اپنے سے پہلے (کی کتابوں) کی تصدیق کرنے والا ہے اور مومنوں کے لیے (سراسر) ہدایت اور خوشخبری ہے
مزید تفاسیر کے لئے
127۔
نَزَّلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ 3143
(اے حبیب!) اسی نے (یہ) کتاب آپ پر حق کے ساتھ نازل فرمائی ہے (یہ) ان (سب کتابوں) کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے اتری ہیں اور اسی نے تورات اور انجیل نازل فرمائی ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
128۔
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ48144
اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
129۔
وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ92145
اور یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے، جو کتابیں اس سے پہلے تھیں ان کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے۔
مزید تفاسیر کے لئے
130۔
وَ مَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰى مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ37146
یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اسے اللہ (کی وحی) کے بغیر گھڑ لیا گیا ہو لیکن (یہ) ان (کتابوں) کی تصدیق (کرنے والا) ہے جو اس سے پہلے (نازل ہو چکی) ہیں۔
مزید تفاسیر کے لئے
131۔
لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِؕ-مَا كَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰى وَ لٰكِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ111147
(بیشک ان کے قصوں میں سمجھداروں کے لیے عبرت ہے) یہ (قرآن) ایسا کلام نہیں جو گھڑ لیا جائے بلکہ (یہ تو) ان (آسمانی کتابوں) کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے (نازل ہوئی) ہیں۔
مختصر وضاحت ۔محولہ بالا آیات کریمہ میں بَيْنَ یَدَيْهِ کے الفاظ سے واضح ہے کہ قرآن حکیم فقط اس وحی کی تصدیق کرتا ہے جو اس سے پہلے نازل ہوئی۔ وہ اپنے بعد کسی وحی کے نزول کی تصدیق تو درکنار اس کا ذکر تک نہیں کرتا، اگر قرآن حکیم کے بعد بھی وحی نازل ہونا ہوتی تو وہ اس کی لازماً تصدیق کرتا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا محمد مصطفی ﷺ آخری نبی ہیں جن پرآخری وحی نازل ہوئی۔ جس طرح حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اسی طرح قرآن حکیم کے بعد کوئی وحی نہیں۔ ان آیات میں انقطاع وحی اور نبوت کا اعلان کرتی ہے جب ہم قرآن کا مطا لعہ کرتے ہے کہ تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک نبی اپنے ماقبل والوں کی تصدیق کرتا ہے اور اپنے بعد آنے ولے نبی کی خوشخبری سناتا ہے لیکن قرآن نے یہ طرز اختیار نہیں کیا کیونکہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔
مزید تفاسیر کے لئے
132۔
وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا27148
اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا چبا لے گا کہ ہائے کسی طرح سے میں نے رسول کے ساتھ راہ لی ہوتی۔
مختصر وضاحت ۔یہ آیت بھی نبی ﷺ کے لئے عموم بعثت کو ثبات کرتی ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قیامت تک تمام پیدا ہونے والی نسلوں کی ہدایے کے صرف نبی ﷺ کفیل بنائے گئے ہیں آپ کے بعد کسی اور کی نبوت کی ضرورت نہیں ۔
مزید تفاسیر کے لئے
یہ آیات جو پیش کی گئی ان میں سے بعض بلکل اس مقصد میں صریح اور عبارۃ النص ہے اور بعض اشارۃ النص، بعض دلالہ النص اور بعض اقتضاء النص ہے اور بعض وہ آیات ہیں جن سے بطور استنباط یا نکات سے ختم نبوت کا ثبوت کیا گیا اور خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں سابقہ انبیاء کا ذکر تو ملتا ہے مگر کسی بعد میں آنے والے کا نام اور دیگر تفصیلات و جزئیات کا کسی بھی حوالے سے کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ قرآن مجید نے حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت اور وحی کا تذکرہ کر کے مِنْ قَبْل یا مِنْ قَبْلِکَ کی قید لگا کر اس امر کا اعلان کر دیا ہے کہ نبوت و رسالت اور وحی کے تمام سلسلے صرف حضور ﷺ سے قبل زمانوں تک ہی محدود تھے جو آپ ﷺ کے بعد منقطع ہوگئے۔
نیز حضور نبی اکرم ﷺ مطلع علی الغیب اور اپنی اُمت پر بے حد مہربان اور رؤف و رحیم ہیں۔ آپ نے قیامت تک پیش آنے والے تمام اہم معاملات کو صراحت کے ساتھ بیان فرما دیا مثلاً مسیح دجال کا خروج یا جوج ماجوج کا ظہور، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا، مختلف فتنوں کا رونما ہونا، الغرض ہر کوئی ایسا اہم معاملہ نہیں تھا جسے آپ نے بیان نہ فرما دیا ہو مگر کسی ایک مقام پر بھی آپ ﷺ نے اشارةً یا کنایۃ یہ نہیں فرمایا کہ میرے بعد کوئی نیا نبی مبعوث ہو گا۔ یا میں مہر لگا کر کسی کو نبی بناد وں گا یا فلاں ملک میں یا فلاں زمانہ میں کوئی ظلی یا بروزی تشریعی غیر تشریعی، اصلی یا لغوی، مستقل یا غیر مستقل، نبی پیدا ہو گا۔ اس کی علامات یہ ہوں گی اس کی اطاعت تم پر فرض ہو گی اور اگر تم نے اطاعت نہ کی تو منکر اور کافر ہو جاؤ گے اور دوزخ کا ایندھن بنو گے بلکہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ جو بھی میرے بعد نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ کذاب کافر اور دجال ہو گا۔
مزید یہ کہ حضور ﷺ نے سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آسمان سے نزول کا ذکر کیا اور ان کی جائے نزول، وقتِ نزول اور ان کے کارہائے نمایاں، ان کی جائے مدفن وغیرہ کا صراحتاً ذکر فرما دیا تاکہ کسی کے دل میں کسی قسم کا کوئی التباس یا ابہام پیدا نہ ہو اور یہ بھی آپ ﷺ نے صراحتاً فرما دیا کہ وہ بحیثیت نبی نہیں بلکہ بحیثیت امام اور خلیفۃ الرسول تشریف لائیں گے اور آپ ﷺ ہی کے اُمتی ہوں گے۔
جب کتابِ اِلٰہی اور احادیث رسول ﷺ سے اجرائے نبوت یا اجرائے وحی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا تو ایک سلیم الطبع آدمی کے لیے ایمان کے باب میں اتنا ہی کافی ہے کہ وہ یقین کر لے کہ آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی پیدا ہو گا اور نہ کوئی رسول۔
اگر مرزا غلام احمد قادیانی کے مطابق اَقسامِ نبوت تشریعی یا غیر تشریعی، ظلی یا بروزی میں سے کوئی قسم وجود پذیر ہونا ہوتی تو حضور نبی اکرم ﷺ اس کا ضرور تذکرہ فرماتے یا قرآن میں اس کا کوئی حوالہ ضرور ملتا مگر قرآن و سنت سے نبوت کی ایسی کوئی تقسیم نہیں ملتی۔