Khatam e Nabuwat

فتنہ قادیانیت کے خلاف پہلا عدالتی فیصلہ

7 فروری1935ء بمطابق 3 ذیقعدہ 1353ھ


از قلم: محمد انس رضا قادری


1۔ 24 جولائی 1926 کو احمد پور شرقیہ کی عدالت میں ایک مقدمہ دائر ہوا، جس میں مدعیہ غلام عائشہ بی بی تھیں اور مدعا علیہ عبد الرزاق(قادیانی) تھے۔

2۔ غلام عائشہ بی بی کے والد مولوی الہی بخش صاحب نے ان کا نکاح مدعا علیہ عبد الرزاق صاحب سے کروایا تھا، لیکن ابھی رخصتی باقی تھی۔ مدعا علیہ عبد الرزاق قادیانیت قبول کر چکے تھے، اور رخصتی کا مطالبہ کر رہے تھے، تو مولوی الہی بخش نے اپنی بیٹی دینے سے انکار کردیا ، کیوں کہ مدعا علیہ عبد الرزاق صاحب مرتد ہوگیا ہے، اس لیے نکاح فسخ ہوگیا ہے، (ان کا یہ دعوی عین شریعت اسلامیہ کے مطابق تھا) عدالت سے مطالبہ کیا کہ فسخ نکاح کی ڈگری جاری کی جائے۔

3۔ مدعا علیہ عبد الرزاق صاحب نے جواباً یہ کہا کہ میں مسلمان ہوں ، احمدی کوئی علیحدہ مذہب نہیں ہےعقائد احمدیہ اختیار کرنے سے کوئی مرتد نہیں ہوتا اور کوئی مرزائی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہے۔ میں مزرا غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود اور نبی تسلیم کرتا ہوں۔

5۔ یہ مقدمہ تقریباً ایک سال تک احمد پور شرقیہ کی عدالت میں زیر سماعت رہا، حضور پیر مہر علی شاہ گولڑوی sym-4کے خلیفہ اور جامعہ عباسیہ بہاول پور کے شیخ الجامعہ علامہ غلام محمد گھوٹوی sym-4نے شروع دن سے اس مقدمے کی پیروی کی، اور تمام سماعتوں میں شریک رہے۔

6۔ 7 مئی 1927کو چیف کورٹ جسٹس ”اودھوداس“ نے یہ مقدمہ ڈسٹرکٹ کورٹ بہاول پور منتقل کردیا.

7۔ ڈسٹرکٹ کورٹ بہاول پور کی جانب سے محدث گھوٹوی کو عدالتی گواہ مقرر کیا گیا تاکہ شرعی نقطہ نظر سے عدالت کو آگاہ کریں۔

8۔ 21 نومبر 1927 کو ڈسٹرکٹ کورٹ بہاول پور نے فیصلہ سنایا، جس میں دوسوال اٹھائے گئے

1۔ کیا قادیانی مذہب کو قبول کرنے والا مرتد ہے؟

2۔ کیا کوئی قادیانیت کو قبول کرلے تو اس کا نکاح مسلمان عورت سے فسخ ہوجائے گا؟

9۔ عدالت نے اس حوالے سے شرعی نقطہ نظر کو بالائے طاق رکھا اور چیف کورٹ بہاولپور کے 1923 کے فیصلے(جو کہ شریعت اسلامیہ کے خلاف تھا) کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ سنایا گیا ، اس فیصلہ میں لکھا گیا تھا کہ

احمدی  مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے ،نہ کہ اسلام سے باہر ہے۔

(فیصلہ مسماۃ جندوڈی بنام کریم بخش، مصدرہ 1923ء)

10۔ چیف کورٹ بہاولپور کے فیصلے مسماۃ جندوڈی بنام کریم بخش، مصدرہ 1923ء کا انحصار 1۔پٹنہ ہائے کورٹ 2۔پنجاب ہائے کورٹ 3۔مدراس ہائے کورٹ کے غیر شرعی فیصلوں پر تھا جن میں قادیانیوں کو مسلمانوں کا ایک فرقہ قرار دیا گیا تھا۔

11۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ مسماۃ غلام عائشہ بی بی کے مقدمے کو ان گزشتہ فیصلوں سے استثنائے خاص دلوایا جائے ، تاکہ شرعی نقطہ نظر سے اس پر فیصلہ دیا جائے۔چنانچہ علامہ غلام محمد گھوٹوی sym-4نے چیف کورٹ بہاولپور میں اپیل دائر کی جس میں اس مسئلے کی اہمیت کو واضح کیا اور یہ تجویز پیش کی کہ اس کیس کو پنجاب، پٹنہ اور مدراس ہائے کورٹس کے نظائر سے مستثنی قرار دلوانے کے لیے اس کیس کو ریاست بہاولپور کی وزارتی کابینہ کے اجلاس خاص میں منتقل کیا جائے جسے ریاست بہاولپور میں سپریم کورٹ کی حیثیت حاصل ہے ۔

12۔ پہلے اس اپیل کو قبول کیا گیا اور پھر اسے مسترد کردیا گیا۔ تو حضرت علامہ غلام محمد گھوٹوی sym-4نے وزیر اعظم ریاست بیاولپور سردار نبی بخش سے ملاقات کی اور انہیں اس اجلاس خاص میں اس کیس کو منتقل کرنے کی درخواست پیش کی ، جس پر وزیر اعظم ریاست بہاولپور سردار نبی بخش نے درخواست کو قبول کرتے ہوئے یہ کہا کہ

اللہ تعالی کا کرم ہے کہ اس نے مجھے تحفظ ناموس رسالت کی خدمت کے لیے منتخب کیا ہے۔

13۔ خضر حیات ٹوانہ کے والد نواب سر عمر حیات ٹوانہ مرحوم لندن گئے ہوئے تھے۔ نواب آف بہاولپور مرحوم بھی گرمیاں اکثر لندن گزارا کرتے تھے۔ نواب مرحوم، سر عمر حیات ٹوانہ سے لندن میں ملے اور مشورہ طلب کیا کہ انگریز حکومت کا مجھ پر دباؤہے کہ ریاست بہاولپور سے قادیانی مقدمہ کو ختم کرا دیں، تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ سر نواب عمر حیات ٹوانہ نے ببانگ دہل کہا کہ

ہم انگریز کے وفادار ضرور ہیں مگر اپنا دین، ایمان اور عشق رسالت مآبﷺ کا تو ان سے سودا نہیں کیا۔ آپ ڈٹ جائیں اور ان سے کہیں کہ عدالت جو چاہے فیصلہ کرے، میں حق و انصاف کے سلسلہ میں اس پر دبائو نہیں ڈالنا چاہتا۔

14۔ 21 دسمبر 1931 ء کو دربار بہاولپور کے اجلاس خاص منعقد ہوا جس میں تمام وزراء موجود تھے، اہل اسلام کی نمائندگی علامہ غلام محمد گھوٹویsym-4 نے کی جبکہ قادیانیت کی نمائندگی جلال الدین شمس اور بیرسٹر اسد اللہ خان قادیانی (برادر ظفر اللہ خان قادیانی) نے کی۔

15۔ اجلاس کے بعد دربار معلّٰے بہاولپور کی جانب سے فیصلہ سنایا گیا اور اس فیصلے کو دیگر فیصلہ جات(پنجاب، پٹنہ اور مدراس ہائی کوٹسز اور چیف کورٹ بہاولپور کے 1923 کے فیصلوں) سے استثناء دیا گیا، اور یہ کہا گیا کہ

سابقہ فیصلوں میں کما حقہ تنقیحات اور تحقیقات سے کام نہیں لیا گیا۔ فریقین کے پیش کردہ شواہد ، اسناد اور دلائل پر سیر حاصل بحث نہیں کی گئی، بلکہ غیر متعلقہ سوالات زیر بحث رہے، اسلام کے بنیادی اصولوں اور ضروریات دین کو موضوع بحث نہیں بنایا گیا اور نہ ہی اس امر میں غور و فکر کیا گیا کہ کیا اصول دین سے انحراف موجب ارتداد ہے یا نہ؟ اور اسلامی عقائد سے روگردانی اور انکار خروج عن الدین کا باعث ہے یا نہیں، سو ان کورٹس کے یہ سابقہ فیصلہ جات اس خاص مسئلے کے بارے میں مکمل وضاحت اور قطعیت کے حامل نہیں لہذا اس کی پیروی ضروری نہیں ہے۔

چنانچہ اب اس قرارداد کے ساتھ یہ مقدمہ اس ہدایت کے ساتھ واپس ہو کہ حضرت مولانا غلام محمد گھوٹوی sym-4کے بیان سے یہ مسئلہ بخوبی واضح ہوگیا ہے کہ اگر کسی شخص کا قادیانی عقائد کے مطابق یہ ایمان ہو کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد کوئی اور نبی آگیا ہے اور اس پر وحی نازل ہوئی ہے تو ایسا شخص چونکہ ختم نبوت بر محمد ﷺ کا منکر ہے جبکہ ختم نبوت کا عقیدہ ضروریات دین اور اساس ہائے ایمان میں سے ہے لہذا و ہ شخص دائزہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔اس لیے اجلاس خاص اس مقدمہ کو اس کی خصوصی حیثیت کی بنا پر پٹنہ، لاہور او ر مدراس اور بہاولپور کے ہائی کورٹس کے سابقہ فیصلوں سے مستثنی کرتے ہوئے ڈسٹرک کورٹ بہاولپور کو مجاز بناتا ہے کہ وہ حضرت مولانا غلام محمد محدث گھوٹوی شیخ الجامعہ العباسیہ اور ملک کے دیگر علماء کرام کے دلائل کی روشنی میں اس مقدمہ کی ازسرنو تنقیح کرے اور حضرت شیخ الجامعہ العباسیہ کے بالمقابل فریق مخالف کو بھی موقع دے تاکہ وہ لوگ بھی اپنا مؤقف پیش کر سکیں۔


16۔ دربار بہاولپور کے اس فیصلے کے بعد 25 جنوری 1932 ء سے ڈسٹرکٹ کورٹ بہاولپور  میں دوبارہ از سر نو کیس کی سماعت کا سلسلہ شروع ہوا ، جو کہ تین سال جاری رہا اور بالآخر 7 فروری 1935ء بمطابق 3 ذیقعدہ1353ھ کو جسٹس محمد اکبر نے تفصیلی فیصلہ سنایا اور اس بات کو واضح کیا کہ

جو شخص قادیانی ہوجاتا ہے تو شریعت اسلامیہ کی رو سے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہوجاتا ہے۔اور ارتداد کے سبب سے نکاح فسخ (ٹوٹ ) جاتا ہے۔

12۔ اس فیصلے میں لکھا گیا کہ

یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ مسئلہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے، اور رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین بایں معنی نہ ماننے سے کہ آپ آخری نبی ہیں ارتداد واقع ہوجاتا ہے اور عقائد اسلامی کی رو سے ایک شخص کلمہ کفر کہہ کر بھی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔


مدعا علیہ مرزا غلام احمد صاحب کو عقائد قادیانی کی رو سے نبی مانتا ہے اور ان کی تعلیم کے مطابق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ امت محمدیہ میں قیامت تک سلسلہ نبوت جاری ہے، یعنی کہ وہ رسول اللہﷺ کو خاتم النبیین بمعنی آخری نبی تسلیم نہیں کرتا۔ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی دوسرے شخص کو نیا نبی تسلیم کرنے سے جو قباحتیں لازم آتی ہیں ان کی تفصیل اوپر بیان کی جاچکی ہے، اس لیے مدعا علیہ اس اجماعی عقیدہ امت سے منحرف ہونے کی وجہ سے مرتد سمجھا جاوے گا۔ اور اگر ارتداد کے ،معنی کسی مذہب کے اصولوں سے بکلی انحراف لیے جائیں تو بھی مدعا علیہ مرزا صاحب کو نبی ماننے سے ایک نئے مذہب کو پیرو سمجھا جائے گا۔ کیونکہ اس صورت میں اس کے لیے قرآن کی تفسیر اور معمول بہ مرزا صاحب کی وحی ہوگی ۔ نہ کہ احادیث و اقوال فقہاء جن پر اس وقت تک مذہب اسلام قائم چلا آرہا ہے۔


یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعا علیہ قادیانی عقائد اختیار کرنے کی وجہ سے مرتد ہوچکا ہے ۔ لہذا اس کے ساتھ مدعیہ(غلا م عائشہ) کا نکاح تاریخِ ارتدادِ مدعا علیہ سے فسخ ہوچکا ہے اور اگر مدعا علیہ کے عقائد کو مذکورہ بالا بحث کی روشنی میں دیکھا جاوے تو بھی مدعا علیہ کے ادعا کے مطابق مدعیہ یہ ثابت کر نے میں کامیاب رہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی امتی نبی نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ جو دیگر عقائد مدعا علیہ نے اپنی طرف منسوب کئے ہیں وہ گو عام اسلامی عقائد کے مطابق ہیں لیکن اس عقائد پر وہ انہی معنوں میں عمل پیرا سمجھا جاوے گا جو معنی مرزا صاحب نے بیان کئے ہیں، اور یہ معنی چونکہ ان معنوں کے مغائر ہیں جو جمہور امت آج تک لیتی آئی ، اس لیے بھی وہ مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ اور ہر دو صورتوں میں وہ مرتد ہی ہے اور مرتد کا نکاح چونکہ اتداد سے فسخ ہوجاتا ہے ۔ لہذا ڈگری بدیں مضمون بحق مدعیہ صادر کی جاتی ہے کہ وہ تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے اس کی زوجہ نہیں رہی۔

محترم قارئین کرام :

یہ مختصر روداد تھی مقدمہ مرزائیہ بہاولپور کی جو کہ برصغیر میں فتنہ قادیانیت کے خلاف پہلا عدالتی فیصلہ ہے۔ جس میں قادیانیت کو اسلام سے الگ ایک مذہب قرار دیا گیا، اور جو قادیانیت قبول کرے اسے کافر اور مرتد قرار دیا ۔ الحمد للہ مسلمانوں کے لیے 7 فروری ایک بڑی فتح کا دن ہے کہ9 سال کی مسلسل جہدوجہد(1926-1935) کے بعد اللہ تعالی نے مسلمانوں کو بڑی کامیابی سے نوازا۔

جتنے حضرات نے اس کار خیر میں خدمات انجام دیں اللہ تعالی سب کو غریق رحمت فرمائے آمین۔

Powered by Netsol Online