صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ مقدس ہستیاں ہیں جن کے مقام کی ہمسری کا دعویٰ کوئی بڑے سے بڑا ولی، قطب، غوث حتی کہ سیدنا غوث الاعظم بھی نہیں کر سکتے۔ اللہ رب العزت نے انہیں تمام مخلوق میں اپنے محبوب کی معیت و مصاحبت کے لیے بطورِ خاص منتخب فرمایا۔ صحبتِ نبوی ﷺ کے فیضان نے ان میں وہ قدسی صفات پیدا فرما دیں جو دنیا میں کسی اور فرد کے حصے میں نہیں آئیں اور اس شرف میں کوئی ان کا شریک وسہیم نہیں۔ ان صحبت یافتگانِ مصطفی ﷺ کے فضائل و کمالات قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں کثرت سے بیان ہوئے ہیں۔ خود حضور نبی اکرم ﷺ نے ان کی محبت کو اپنی محبت اور ان کی عداوت کو اپنی عداوت قرار دیااور ان کے خلاف گستاخی اور زبان درازی کرنے والوں کو کڑی وعید سنائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہی اپنی رضا و خوشنودی کی سند عطا فرمائی اور جنت کی خوشخبری دی۔ مرزا غلام احمد قادیانی ان ذواتِ مقدسہ کو بھی گستاخی اور اہانت کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکے۔ ان کی زبان درازیوں اور افترا پردازیوں سے یہ نفوس مقدسہ بھی محفوظ نہیں رہے۔ مرزا صاحب کے خبثِ باطن اور پلیدگی کو ظاہر کرنے کے لیے ہم ذیل میں شانِ صحابہ کی توہین میں ان کی چند تحریروں سے اقتباسات نقل کرتے ہیں۔
فمن دخل فی جماعتی دخل فی صحابة سیدي خیر المرسلین
پس وہ جو میری جماعت میں داخل ہوا در حقیقت میرے سردار خیر المرسلین (ﷺ)کے صحابہ میں داخل ہوا۔
پس ان دونوں گروہوں (یعنی صحابہ آنحضرت اور صحابہ مسیح موعود)میں تفریق کرنی ایک کو دوسرے سے مجموعی رنگ میں افضل قرار دینا ٹھیک نہیں۔ یہ دونوں فرقے درحقیقت ایک ہی جماعت میں ہیں۔ صرف زمانہ کا فرق ہے۔ وہ بعثت اولیٰ کے تربیت یافتہ ہیں، یہ بعثت ثانی کے۔
میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابوبکر کے درجہ پر ہے تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر کیا وہ تو بعض انبیاء سے بہتر ہے ۔
میں وہی مہدی ہوں۔جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابوبکر ؓ کے درجہ پر ہے۔تو انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر ؓ کیا وہ تو بعض انبیاء سے بہتر ہے۔
بعض کم تدبر کرنے والے صحابی جن کی درایت اچھی نہیں تھی (جیسے ابو ہریرہ ) وہ اپنی غلط فہمی سے عیسیٰ موعود کی پیشگوئی پر نظر ڈال کر یہ خیال کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ ہی آجائیں گے جیسا کہ ابتدا میں ابو ھریرہ کو بھی یہ دھوکہ لگا ہوا تھا اور اکثر باتوں میں ابوہریرہ بوجہ اپنی سادگی اور کمی درایت کے ایسے دھوکوں میں پڑ جایا کرتا تھا۔
جیسا کہ ابوہریرہ جو غبی تھا اور درایت اچھی نہیں رکھتا تھا۔
جو شخص قرآن شریف پر ایمان لاتا ہے اس کو چاہیے کہ ابوہریرہ کے قول کو ایک ردی متاع کی طرح پھینک دے۔
حق بات یہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ایک معمولی انسان تھا نبی اور رسول تو نہیں تھا اس نے جوش میں اگر غلطی کھائی تو کیا اس کی بات کو اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحی میں داخل کیا جائے۔
یوں تو ہر صحابیِ رسول ﷺ ہدایت کا ستارہ ہے لیکن بدری صحابہ رضی اللہ عنہم خصوصی امتیازی شان اور فضیلت کے حامل ہیں۔ اس لیے ان کی گستاخی دوہرا جرم ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے بدری صحابہ کے مقابلہ میں اپنے 313 چیلوں کی فہرست تیارکی اور اسے اپنی کتابوں میں شائع کیا ۔
مرزا صاحب خود لکھتے ہیں: ’’اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا۔ اور دور دور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہلِ بدر کے شمار سے برابر ہوگا یعنی تین سوتیرہ ہوں گے اور ان کے نام بقید مسکن وخصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے۔
حضرت علی کی توہین:
پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو اب نئی خلافت لو۔ ایک زندہ علی تم میں موجود ہے۔ اس کو چھوڑتے ہو ١ور مردہ علی کی تلاش کرتے ہو۔
کربلا است سیر ہر آنم صد حسین است در گریبانم
میری سیر ہر وقت کربلا میں ہے۔ سو (100) حسین میری جیب میں ہیں۔
(نزول المسیح صفحہ:99، روحانی خزائن جلد: 18صفحہ:477)
امام حسین کی شہادت سے بڑھ کر حضرت مولوی عبداللطیف صاحب (قادیانی) کی شہادت ہے جنھوں نے صدق اور وفا کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا اور جن کا تعلق شدید بوجہ استقامت سبقت لے گیا تھا۔
صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی نسبت حضرت اقدس نے فرمایا کہ وہ ایک اسوۂ حسنہ چھوڑ گئے ہیں اور اگر غور سے دیکھا جائے تو ان کا واقعہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے واقعہ سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے۔
اور مجھ میں اور تمہارے حسین میں بہت فرق ہے، کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے۔
وما وردكم الا حسین اتنكر ۔فهذا علی الاسلام احدي المصائب ۔لدي نفحات المسک قذر مقنطر
تمھارا ورد تو صرف حسین ہے کیا تو انکار کرتاہے ؟پس یہ اسلام پر ایک مصیبت ہے کہ کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ کا ڈھیر (ذکر حسین) ہے۔
بعض نادان صحابی جن کو درایت سے کچھ حصہ نہ تھا ۔
حضرت فاطمہ نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں ان میں سے ہوں۔
حضرت امیر معاویہ بھی تو صحابی ہی تھے جنہوں نے خطا پر جم کر ہزاروں آدمیوں کے خون کرائے۔
(ازالہ اوہام ،حصہ دوم ص :322،روحانی خزائن ،ج :3،ص: 422)
مرزا قادیانی کی دو نمبری دیکھیں کہ جہاں جہاں اس نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کے لئے رقیق الفاظ استعمال کئے وہیں اپنے قریبی لوگوں کے لئے تعریفی بل باندھیں یعنی جو اس کے قریب رہے وہ تو اعلی ہو اور جو نبی کے شاگرد ہو وہ ناقص ہو یہ قادیانیت کی دوغلہ پالیسی ہے جس سے مسلمانوں کو محفوظ رہنا چاہیئےاللہ تبارک وتعالی نے صحابہ رسول ﷺ کو بڑے مرتبہ سے نوازا ہے اللہ تعالی ان کی خدمات کو قبول فرمائیں۔