بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
نحمده ونصلى على رسوله الكريم
جناب حضرتنا، شيخنا، سيدنا ومولانا، زبدة المحققین ورئیس العارفین بعد سلام علیکم کے عاجز یوں گذارش کرتا ہے کہ فرقہ باطلہ مرزائیہ کی تائید میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے ایک معتقد مرزا ابو العطاء حکیم خدا بخش قادیانی نے ایک ضخیم کتاب ’’عسل مصفّٰی“ لکھی ہے۔ اس کتاب میں مرزا موصوف نے اپنے زعم میں وفات مسیح کو جہاں تک ہو سکا ثابت کیا۔ مرزا صاحب قادیانی نے تو ازالۂ اوہام مطبع ریاض ہند امرتسر 1308ھ کے صفحہ 591 تا 627 میں 30 آیات قرآنی سے وفات مسیح کا استدلال پکڑا مگر حکیم صاحب اپنے پیر سے بھی بڑھ کر نکلے یعنی انہوں نے ساٹھ آیات قرآنی سے وفات مسیح کا استدلال پکڑا۔ مثل مشہور ہے۔ ’’گرو جنہاں دے جاندے ٹپ۔ چیلے جان شڑپ“ راقم الحروف کی اکثر اوقات امرتسر کے مرزائیوں کے ساتھ گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ آپ کی کتاب ’’سیف چشتیائی“نے مجھے بڑا فائدہ دیا اور چند ایک مرزائیوں نے اسے پڑھا۔ چنانچہ حکیم الٰہی بخش صاحب مرحوم معہ اپنے لڑکے کے آخر مرزائیت سے توبہ کر گئے اور اسلام پر ہی فوت ہوئے اور باقی مرزائیوں کے دل ویسے ہی سخت رہے۔ سچ ہے کہ
خاک سمجھائے کوئی عشق کے دیوانے کو
زندگی اپنی سمجھتا ہے جو مر جانے کو
میری خود یہ حالت تھی کہ عسل مصفّٰی کو پہلی بار پڑھنے سے دل میں طرح طرح کے شکوک اُٹھے اور وفات مسح پر پورا یقین ہو گیا مگرالحمد للہ کہ آپ کی ’’سیف چشتیائی“اور’’شمس الہدایت“ نے میرے متذبذب دل پر تسلی بخش امرت ٹپکا۔ امید ہے کہ کئی برگشتہ آدمی اس سے ایمان میں تر وتازگی حاصل کریں گے۔ عرصہ ایک سال سے عاجز نے کمر بستہ ہو کر یہ ارادہ کر لیا ہے کہ ایک ضخیم کتاب بنا کر عسل مصفی کی تردید بخوبی کی جائے اور اس کی تمام چالاکیوں کی قلعی کھولی جاوے۔ چنانچہ راقم الحروف عسل مصفی کے رد میں ایک کتاب’’ صاعقہ رحمانی بر نخل قادیانی“ لکھ رہا ہے اور اس کے پانچ باب ترتیب وار باندھے ہیں۔ (1) حیات مسیح 15 فصلوں پر۔ (2) حقیقت المسیح 15 فصلوں پر۔ (3) حقیقت النبوت 15 فصلوں پر۔ (4) حقیقت المہدی 12 فصلوں پر۔ (5) حقیقت الدجال 8 فصلوں پر۔
مصنف عسلِ مصفّٰی نے چند ایک اعتراضات حیات مسیح اور رجوع موتیٰ پر کئے ہیں۔ عاجز ذیل میں وہ اعتراضات تحریر کر دیتا ہے اور آپ سے ان کے جوابات کا خواستگار ہے۔ میں نے امرتسر کے چند ایک عالموں مثلاً محمد داؤد بن عبد الجبار مرحوم غزنوی، خیر شاہ صاحب حنفی نقشبندی، ابو الوفاء ثناء اللہ وغیرہ سے ان اعتراضوں کے جواب پوچھے مگر افسوس کہ کسی نے بھی جواب تسلی بخش نہیں دیئے۔ اب امید ہے کہ آپ بخیال ثواب دارین ان اعتراضوں کے جواب تحریر فرما کر فرقہ مرزائیہ کے دام مکر سے اہلِ اسلام کو خلاصی دیں گے۔
اول:صحیح بخاری میں ہی ہے:عن ابن عباس قال قال رسول الله ﷺ تحشرون حفاة عراة غرلا ثم قرأ كما بدأ نا اول خلق نعيده وعداً علينا انا كنا فاعلين فاول من يكسى ابراهيم ثم يؤخذ برجال من اصحابى ذات اليمين وذات الشمال فاقول اصحابی فيقال انهم لا يزالوا مرتدين على اعقابهم من فارقتهم فاقول كما قال العبد الصالح عيسى بن مريم وكنت عليهم شهيداً ما دمت فيهم فلما توفيتنى الخ1 (ابن عباس نے کہا نبی کریم ﷺ نے ایک روز خطبہ دیا اور فرمایا تم اللہ کے حضور اس حال میں اٹھائے جاؤ گے کہ تمہارے پاؤں اور بدن ننگے ہوں گے اور ختنے نہ کیے ہونگے ’’جیسے ہم نے پہلے پیدا کیا اس طرح لوٹائیں گے ہمارا وعدہ ہے ہم اسے ضرور پورا کریں گے“پھر قیامت میں سب سے پہلے جس کو لباس پہنایا جائیگا وہ ابراہیم ہیں۔ پھر میرے اصحاب میں سے داہنی اور بائیں طرف لے جایا جائے گا اور میں کہوں گا یہ میرے اصحاب ہیں تو کہا جائے گا جب آپ ان سے جدا ہوئے وہ اپنی ایڑیوں کے بل پھر گئے تھے (مرتد ہو گئے تھے) تو میں کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ بن مریم نے کہا تھا میں جب تک ان میں تھا ان پر گواہ تھا جب تو نے مجھے آسمانوں پر لے جانے کا وعدہ پورا کر دیا تو تو ہی ان کی نگہبانی کرنے والا تھا اور تو ہر شئی پر گواہ ہے) جز 7 سورۃ مائدہ میں ذکر ہے کہ مسیح پر سوال ہونے پر مسیح جواب دیں گے کہ : سُبْحٰنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْ وَ كُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ1 (پاکی ہے تجھے مجھے روا نہیں کہ وہ بات کہوں جو مجھے نہیں پہنچتی اگر میں نے ایسا کہا ہو تو ضرور تجھے معلوم ہوگا تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے۔ بے شک تو ہی سب غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔ میں نے تو اُن کو نہ کہا مگر وہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ عبادت کرو اللہ کی جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اور میں ان پر مطلع تھا جب تک میں ان میں رہا پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگاہ رکھتا تھا اور ہر چیز تیرے سامنے حاضر ہے) قیامت کے دن رسول ﷺ یہ آیات اپنے اوپر چسپاں کر کے فرماویں گے۔ اور اپنے بیان کو عیسیٰ کی طرح بیان فرماویں گے۔ اب یہ بھی ظاہر ہے کہ آپ ﷺ فوت ہو چکے ہیں۔ پس آپ ﷺ یہی کہیں گے کہ جب تو نے مجھے وفات دی اور کما قال العبد الصالح صاف ظاہر کرتا ہے کہ مسیح بھی یہی کہیں گے کہ جب تو نے وفات دی۔
اب اس سے معنی وفات کے لیے کر یہ کہا جائے کہ اس سے مراد وہ موت ہے جو مسیح کو زمین پر آنے کے پینتالیس ۴۵ سال بعد آئے گی تو اس پر یہ اعتراض لازم آئے گا کہ مسیح کے پیرو مسیحی ابھی گمراہ نہیں ہوئے بلکہ مسیح کی وفات کے بعد ہوں گے اور اس جا آئندہ وفات مراد لینا اس وجہ سے بھی غلط ہے کہ خدا تو مسیح کے اس زمانے کی نسبت سوال کر رہا ہے جب کہ مسیح کو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا نہ آئندہ زمانے کی نسبت اور پھر مسیح اتنا زمانہ چھوڑ کر آئندہ موت کی بابت کس طرح گفتگو کرتے اور پھر تفسیر مثلاً کمالین وحسینی وغیرہ میں فلما توفیتنی کے معنی رفع الی السماء نہ ہوتا۔ اور گذشتہ زمانے میں یہ کہنے پر کہ ’’جب تو نے مجھے آسمان پر اٹھا لیا“ یہ اعتراض آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ پھرکما قال العبد الصالحفرما کر قیامت کو کس طرح کہہ سکتے ہیں ’’جب تو نے مجھے فوت کر لیا“ ورنہ یوں کہنا چاہیے ’’جب تو نے مجھے آسمان پر اُٹھا لیا“ اور یہ غلط ہے۔ جس حالت میں کہ مسیح کی طرح ہی آنحضرت ﷺ فرماویں گے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسیح کی بابت تو آسمان پر اٹھایا جانا معنیٰ کریں اور آنحضرت ﷺ کی بابت فوت ہو جانے کے معنی کریں۔ کیونکہ اس سے تو مماثلت درست نہیں رہتی۔
دوم: صحیح بخاری میں کتاب التفسیر میں ہے: قال ابن عباس متوفیک ممیتک2 بعض تفسیروں میں لکھا ہے کہ ابن عباس ایسے معنے کرنے میں آیتیا عیسیٰ انی الخ میں تقدیم وتاخیر کے قائل ہیں اس پر یہ اعتراض آتے ہیں۔
1۔ صحیح بخاری سے یہ ثابت نہیں کہ ابن عباس تقدیم وتاخیر کے قائل ہیں کیونکہ کتاب التفسیر میں صرف متوفیک کے معنی ممیتک لکھتے ہیں۔
2۔ اگر رافعک کے بعد متوفیک کو رکھیں تو لازم آوے گا کہ مسیح کا رفع تو ہو گیا ہے و مطهرك وجاعل الذين الخ کا وعدہ ابھی پورا نہیں ہوا بلکہ بعد وفات کے ہوگا اور یہ غلط ہے۔
3۔ اگر متوفیک کو مطھرک کے بعد رکھیئے تو لازم آئے گا کہ رفع ومطہر ہونے کے وعدے تو پورے ہو گئے ہیں مگر مسلمان کافروں پر غالب نہیں ہیں بلکہ موت کے بعد ہوں گے حالانکہ یہ غلط ہے۔
4۔ اگر متوفیک کو سب کے آخر رکھیں تو لازم آوے گا کہ قیامت کے دن جب کہ اور لوگ زندہ ہو کر اٹھیں گے مسیح فوت ہو جائیں گے کیونکہ چوتھا وعدہ یہ ہے کہ قیامت تک تیرے پیروؤں کو کافروں پر غالب رکھوں گا۔
5۔ یہ چار وعدے ترتیب وار ہیں اگر واؤ ترتیب کے لئے نہیں ہے بلکہ قیامت کے پہلے پہلے یہ سب وعدے پورے ہو جانے چاہئیں تو الی یوم القيامة کی ضرورت نہ تھی اور اس کی نظیر میں کوئی اور آیت بھی پیش کرنی چاہیے۔
خادم الاسلام محمد حبیب اللہ کٹڑہ مہاں سنگھ کوچہ ناظر قطب الدین، پاس مسجد غزنویاں امرتسر
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد لله وحده والصلوة والسلام على من لا نبی بعده و آله وصحبه
توفیکا معنی موت نہیں بلکہ موت ایک نوع ہے معنئ توفی کے انواع میں سے توفی کا معنی قبض کر لینا، اُٹھا لینا، پورا کر لینا، سُلانا۔ دیکھو لسان العرب، قاموس، صراح وغیرہا سیف چشتیائی ملاحظہ ہو۔ پھر قبض کر لینا عام ہے۔ ایسا ہی اُٹھا لینا۔ اگر اس قبض ورفع کا متعلق نفوس وارواح ہوں اور فاعل اللہ تعالیٰ ہو تو اس کے لئے دو صورتیں ہیں۔ ایک موت، دوسری نیند۔ پس موت ونیند معنی توفیکے لئے جزئیات ومواد ٹھہرے۔ چنانچہ آیت ذیل سے صاف ظاہر ہےاَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَا3 یعنی قبض نفوس وارواح کی دو صورتیں ہیں ایک موت، دوسری نیند۔ اگر یتوفی کا معنی صرف موت دینا اور مارنے کا لیا جائے تو کلام الٰہی(معاذ اللہ) بالکل بے معنی ہو جاتا ہے کیونکہ جب توفی کے مفہوم میں موت ہے تو پھر (حين موتها) لغو ٹھہرے گا اور (والتی لم تمت) میں بوجہ عطف کے (الانفس) پر اجتماع ضدین (موت وعدم موت) کا سامنا آئے گاو ھو باطلآیت کا مطلب یہ ہوا کہ قبض نفوس گو دو صورتوں موت ونیند میں ہوتا ہے۔ مگر در صورتِ موت نفس مقبوضہ کو چھوڑا نہیں جاتا بخلاف نیند کے کہ اس میں نفس مقبوضہ کواجل مسمی ومیعاد معین تک چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ساری آیت پڑھواَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَا فَیُمْسِكُ الَّتِیْ قَضٰى عَلَیْهَا الْمَوْتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى4 (اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے ان کی موت کے وقت اور جو نہ مریں انہیں ان کے سونے میں۔ پھر جس پر موت کا حکم فرما دیا اسے روک رکھتا ہے اور دوسری ایک میعاد مقرر تک چھوڑ دیتا ہے) پس ثابت ہوا کہ توفی کا معنی صرف قبض ہے اور مقبوض شدہ شے خواہ نفوس وارواح ہوں اور پھر چھوڑے نہ جائیں جیسے موت کی صورت میں، یا پھر چھوڑ دیئے جائیں جسے بحالت نیند وبیداری یا غیر نفوس ہوں۔ چنانچہ توفیت مالی وغیرہ محاورات عرب کما فی لسان العرب وغیرہ ایسا ہی (متوفیک) اور (فلما توفیتنی) خارج ہے موضوع لہ توفی سے کہ (المضاف اذا اخذ من حيث انہ مضاف يكون التقييد داخلا و القيد خارجا)5 (مضاف کو جب اس حیثیت سے لیا جائے کہ وہ مضاف ہے تقیید داخل اور قید خارج ہوگی) قاعدہ مسلّمہ ہے۔
فرض کیا کہ زید مر گیا اور عمرو سو رہا ہے اور دونوں کے متعلقین نے زید کے مر جانے اور عمرو کے سو جانے کے بعد ارتکاب جرائم اعتقادی وعملی کرنا شروع کیا۔ زید وعمرو دونوں سے سوال کرنے میں ایک ہی عبارت کا استعمال بحسب شہادت آیۃ مذکورہ بالا (الله يتوفى الانفس) کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً (ا انتما قلتما ان يعتقدوا و يعملوا كذا وكذا) بجواب اس کے دونوں کہہ سکتے ہیں کہ (ما كان لنا ان نقول لهم كذا كذا الا ما امرتنا وكنا عليهم شهيدين ما دمنا فيهم فلما توفيتنا كنت انت الرقيب عليهم وانت على كل شئی شهيد) یعنی برخلاف ارشاد الٰہی ان کو کہنا ہم کو شایاں نہیں تھا۔ ہم جب تک ان میں موجود تھے ان کو ہدایت کرتے رہے اور فرمانِ خداوندی پہنچاتے رہے۔ پھر جب تو نے ہماری ارواح کو قبض کر لیا اور اُٹھا لیا۔ پھر تو ان پر نگہبان تھا بشہادت آیت مسطوره بالا وکتب لغت (لسان العرب، قاموس، صراح) توفی کا معنی قبض ورفع کا ٹھہرا اور موت ونیند انواع واقسام ٹھہرے معنی قبض کے لئے۔ اور مسلّمہ قاعدہ ہے کہ استعمال کلی کا جزئی میں مجاز ہے نہ حقیقت۔ لہٰذا اہل لغت نے موت کو معنی مجازی ٹھہرایا ہے توفی کے لئے ’’سیف چشتیائی“ ملاحظہ ہو۔
ایسا ہی آنحضرت ﷺ اور مسیح ابن مریم علیہما السلام بجواب سوال مذکور لفظ فلما توفيتنی استعمال فرما سکتے ہیں یعنی آپ ﷺ بایں معنی (پھر جب قبض کر لیا تو نے روح میرا) او مسیح علی نبینا علیہ السلام (پھر جب قبض کر لیا تو نے مجھ کو یعنی میرے جسم کو مع الروح پکڑ لیا اور اٹھا لیا) وجہ اس کی وہی ہے کہ توفی کا معنی مطلق قبض ورفع کا ہے اور شئی مقبوض ومرفوع اس کے معنے سے خارج ہے جملہ توفی اللہ زیداکو تینوں صورتوں میں بول سکتے ہیں۔
1۔ اللہ تعالیٰ نے زید کو مار دیا۔ یعنی اس کی روح کو قبض کرنے کے بعد نہ چھوڑا۔ یا
2۔ اللہ تعالیٰ نے زید کو سلایا۔ یعنی اس کی روح کو بعد القبض چھوڑ دیا۔ یا
3۔ اللہ تعالیٰ نے زید کو بالکلیہ (جسم مع الروح) قبض کر لیا اور اُٹھا لیا۔
تیسری صورت محل نزاع ہے اور پہلی دو صورتیں آیت (الله يتوفى الانفس) سے صراحۃً ثابت ہیں۔ بلکہ اس آیت میں یتوفی کے معنی میں غور کرنے پر یہ اشکال جاتا رہتا ہے کہ جسم مع الروح کا اُٹھا لینا جملہ مذکورہ سے کیسے مراد ہو سکتا ہے۔ حالانکہ محاورہ قرآنیہ میں جس جگہ توفی کا فاعل اللہ تعالیٰ ہو وہاں معنی موت ہی مراد ہے۔ کیونکہ مطلق قبض ورفع توفی کا معنی ہے نہ خاص موت ہی۔ جو لفظ کہ معنی کلی (مطلق رفع وقبض) کے لئے موضوع بشہادت لغت وقرآن کریم ہے اس لفظ (توفی) کو ایک اُس معنی کی جزی کے لئے موضوع سمجھ لینا مثلاً لفظ انسان کو خاص زید کے لئے موضوع قرار دے لینا سراسر جہالت ہے۔
سطحی فرقہ کو دھوکا لگنے کی وجہ علاوہ قلت مبلغِ علمی کے یہ بھی ہے کہ معنی کلی توفی کے جزئیات ومواد میں سے موت والا مادہ فی الواقع بھی بہت ہے اور قرآن کریم میں بھی بکثرت وارد ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اس کثرت کی وجہ سے عوام نے موت کو معنی حقیقیتوفی کے لئے سمجھ رکھا ہے۔ مگر اہل تحقیق واہل بصیرت کی نظر واقعات پر ہوتی ہے مثلاً وہ لوگ دیکھتے ہیں کہ گو قر آن کریم ہی میں خلقت انسان نطفہ سے بتائی گئی ہے اور اس کے نظائر وجزئیات کے لئے اس قدر وسعت وفراخی ہے کہ شمار میں نہیں آ سکتے اور (اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ)6 (بے شک ہم نے اس کو نطفہ سے پیدا کیا ہے) اور ایسا ہی خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍ یَّخْرُ جُ مِنْۢ بَیْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَآىٕبِ7 (پیدا کیا اچھلتے ہوئے پانی سے جو پیٹھ اور سینے کے بیچ سے نکلتا ہے) بھی کثرت مذکور پر شاہد ہیں مگر اس سے ہرگز ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ لفظ خلق کا معنی یہی قرار دیا جائے کہ نطفہ سے پیدا کرنا بلکہ معنی خلق کا مطلق پیدا کرنا ہے خواہ نطفہ
1۔ والدین سے ہو۔ چنانچہ کثیر الوقوع ہے۔ یا
2۔ صرف نطفہ والدہ سے۔ چنانچہ مسیح ابن مریم۔ یا
3۔ جسم انسانی کے پہلو سے۔ چنانچہ حوا علیہا السلام۔ یا
4۔ مٹی سے۔ چنانچہ آدم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام لہٰذا توفی کا معنی صرف موت بشہادتِ کثرت نظائر قرآنیہ سمجھ لیا گیا ہے۔ یہاں پر بالطبع سوال ذیل پیدا ہوتا ہے کہ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍ یَّخْرُ جُ مِنْۢ بَیْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَآىٕبِ کے عموم سے نصوص قرآنیہ مثلاً(خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ)8 اور(اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ الخ)9 آدم وعیسیٰ علی نبینا وعلیہما السلام کو استثناء کنندہ موجود ہیں اور عیسیٰ علی نبینا وعلیہ السلام کو کونسی نص قرآنی کثیرة الوقوع جزئیات ومواد سے مستثنیٰ کرتی ہے؟
آيت وما قتلوه يقينا بل رفعه الله اليه10 عیسیٰ بن مریم علی نبینا وعلیہ السلام کے بتمامہ وزندہ اُٹھائے جانے پر نص قطعی ہے۔
بل رفعه الله الیہسے مراد رفع درجات واعزاز ہےكما قال سبحانہ وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ نہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح ابن مریم علی نبینا وعلیہ السلام کو زندہ اُٹھا لیا۔
بل رفعه الله الیہ سے رفع درجات مراد لینا بالکل مخالف ہے سیاقِ کلام الٰہی کے اس لئے کہ ماقبل میں قول یہود کا ذکر ہے کہ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ11یعنی یہود کا یہ خیال تھا کہ ہم نے مسیح علی نبینا وعلیہ السلامکو بذریعہ صلیب مار ڈالا۔ جس کی تردید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسیح کا بذریعہ صلیب قتل کرنا یہ محض یہود کا غیر واقعی زعم ہے۔ اُنہوں نے مسیح علی نبینا وعلیہ السلام کو قتل نہیں کیا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اُٹھا لیا۔ یعنی مسیح کو ان کے ہاتھ سے بچا لیا۔ چنانچہ دوسری جگہ فرماتا ہے وَ اِذْ كَفَفْتُ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَنْكَ12 یعنی اے مسیح منجملہ ہمارے انعامات واحسانات کے جو تجھ پر ہم نے کئے ہیں اور جن کا ذکر ماقبل میں ہے۔ مثلاً احیاء موتٰی وابراء اکمہ وتائید بروح القدس ایک یہ بھی احسان ہے کہ ہم نے تم کو یہود کے ہاتھ سے بچا لیا اور ظاہر ہے کہ یہ تردید اسی صورت میں تردید ما قبل یعنی قول یہود کی ہو سکتی ہے کہ رفعہ الله اليه سے مراد رفع جسمانی لیا جائے یعنی اللہ تعالیٰ نے مسیح کے جسم کو اٹھا لیا اور یہود کے پنجہ سے بچا ليا كما قال وَ اِذْ كَفَفْتُ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَنْكَ اور نیز در صورت رفعِ درجات واعزاز کلمہ بل کے ماقبل اور مابعد یعنی قتل ورفع میں علاوہ مخالفت سیاقِ کلام کے تضاد بھی نہیں پایا جاتا جو کہ قصر قلب کا مفاد ہوتا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے ما اهنت زيدا بل اکرمتہ میں نے زید کی اہانت نہیں کی بلکہ اس پر اکرام کیا ہے اور اس کو عزت بخشی ہے۔ اہانت اور اکرام میں تضاد ہے دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ ایسا ہی قتل اور رفع کا بھی اجتماع نہ چاہیے۔ قتل جسمی اور رفع جسمی میں تو بے شک تضاد اور عدم اجتماع ہے اور قتل جسمی اور رفع درجات میں تضاد نہیں۔ کیونکہ جو شخص بے گناہ مقتول وشہید ہو اس کے لئے رفع درجات بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا (رفعہ اللّٰہ الیہ)سے رفع جسمی مراد ہے نہ رفع درجات۔
قتلِ صلیبی چونکہ حسب تصریح تورات موجب لعن وملعونیت ہے لہٰذا ذکر ملزوم وارادہ لازم کے طریق پر گویا کلام مذکور بمنزلہ وما كان ملعونا بل رفعہ اللّٰہ الیہ کے ٹھہرا اور ملعونیت اور رفع درجات روحی کے مابین تضاد ہے، دونوں بہم جمع نہیں ہو سکتے۔
مقتول صلیبی کا مستوجب لعن ہونا اُسی صورت میں ہے جب مقتول مرتکب جرم ہو ورنہ در صورت غیر مجرم ہونے کے مستحق اعزاز واکرام ہوتا ہے دیکھو تورات کتاب استثناء آیت ۲۲ اور ۲۳ میں اس امر کی تصریح کر دی گئی ہے۔ جس کو ہم سیفِ چشتیائی میں تورات سے بعبارتہ نقل کر چکے ہیں۔ (اس وقت یہ قلم برداشتہ لکھ رہا ہوں اور کوئی کتاب سامنے نہیں) آیت بل رفعہ اللّٰہ الیہ میں تحقق ہے اس وعدہ کا جو آیت (انی متوفیک و رافعک الی الخ) میں دیا گیا تھا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آیت (بل رفعه الله الیہ) نص قطعی ہے رفع جسمی وحیات مسیح پر اور تحقق ہے اس وعدہ کے لئے جو کہ (متوفیک) (ورافعک) دونوں سے کیا گیا ہے۔ اور (فلما توفیتنی) میں وہی مطلق رفع مراد ہے یعنی در جواب سوال خداوندی آنحضرت ﷺ ومسیح علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام دونوں اس (توفیتنی) کو استعمال فرمائیں گے جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں۔ پس ثابت ہوا کہ (انی متوفیک)اور (فلما توفیتنی) اور (بل رفعہ الله الیہ) میں رفع جسم والروح مراد ہے۔ واضح ہو کہ ابن عباس وبخاری کا مذہب حیات مسیح کا ہے۔ چنانچہ مرویات ابن عباس مندرجہ تفسیر در منثور وکتب احادیث اور تراجم بخاری سے ظاہر ہے اور حدیث بر تملا وصی عیسیٰ ابن مریم سے بھی کل صحابہ علیہم الرضوان کا اجماعی عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔ سیف چشتیائی ملاحظہ ہو۔ لہٰذا قول ابن عباس متوفیک ممیتکمندرجہ بخاری سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ ان کا مذہب برخلاف عقیده اجماعی کے ہو ممکن ہے کہ متوفیک کا معنی ممیتک امتحاناً فرما دیا ہو۔ چنانچہ آپ کے (ابن عباس) مباحثاتِ یومیہ میں جو فیما بین صحابہ آیات قرآنیہ کے متعلق ہوا کرتے تھے۔ اثناء تقریر میں مسح علی کی الرجلینکو مدلل طور پر امتحاناً بپایۂ ثبوت پہنچاتے تھے۔ حالانکہ مذہب ان کا غسل رجلین کا ہے۔ اور نیز یہ روایت معارض ہے دوسری روایات ابن عباس سے جن کو در منثور وغیرہ نے باسانید صحیحہ ذکر کیا ہے۔13
والسلام خير ختام والحمد لله اولا وآخرا والصلوة والسلام منه باطناً عليه ظاهراً العبد الملتجى والمشتكى الى الله
المدعو بمهر علی شاه عفى عنه ربه
بقلم خود از گولڑه (18/ ذو الحجہ 1334ھ)
( الافاضات السنیۃ الملقب بہ فتاوی مہریہ ،ص:47تا52،مکتبہ مہر منیر گولڑہ)