اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدد دین وملت حضرت علامہ مولانا قاری حافظ مفتی احمد رضا خان محدث قادری برکاتی حنفی بریلوی 10 شوال ۱۲۷۲ھ مطابق ۱۴ جون ۱۸۵۶ء کواتر پردیش کے شہر بریلی میں ایک دینی وعلمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آٹھ سال کی عمر میں فن نحو کی "ہدایۃ الخو" نامی درسی کتاب پڑھنے کے دوران ہی عربی زبان میں اس کی شرح لکھی۔ دس سال کی عمر میں اصول فقہ کی نہایت معرکۃ الآراء، ادق واہم کتاب "مسلم الثبوت" مصنفہ حضرت محب اللہ بہاری کی بسیط شرح تصنیف فرمائی۔ تیرہ سال دس ماہ پانچ دن کی عمر میں تمام علوم مروجہ درسیہ سے فراغت حاصل کر کے باقاعدہ تدریس کا آغاز کیا، اور منصب افتاء کی ذمہ داری سنبھال لی۔ پھر خداداد ذہانت اور زور مطالعہ سے بتدریج مختلف شرقی وغربی علوم کو خود ہی حل فرما کر داد تحقیق پائی۔
بائیس سال کی عمر میں بیعت وخلافت سے مشرف ہوئے اور پیر مرشد نے فخریہ ارشاد فرمایا:
"قیامت کے روز خدا نے پوچھا کہ آل رسول! دنیا سے کیا لائے ہو؟ تو میں احمد رضا کو پیش کر دوں گا۔"
اب تدریس، افتاء اور تالیف وتصنیف کے ساتھ ساتھ اصلاح معاشرہ کی طرف خصوصی توجہ دی۔ مسلمانوں میں پھیلے ہوئے غلط رسم ورواج کو مٹانے کے درپے ہوئے، بدعات وخرافات کے خلاف محاذ قائم کیا اور دوسرے مذاہب کی تردید کے ساتھ ساتھ خود اسلام کے نام پر غیر اسلامی نظریات پھیلانے والے مختلف فرقوں کے رد وابطال میں پوری تن دہی کے ساتھ مصروف ہو گئے۔
۱۳۱۸ھ مطابق ۱۹۰۰ء کو مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری کے جانشین جناب حضور شاه امین احمد فردوسی، زیب سجادہ "خانقاہ معظم بہار شریف" کی صدارت میں منعقدہ پٹنہ کے تاریخ ساز اجلاس کے اندر غیر منقسم ہندوستان (موجودہ ہند وپاک اور بنگلا دیش) کے سیکڑوں عمائد علماء، مشائخ اور خانقاہوں کے سجادہ نشین حضرات کی موجودگی میں مجدد مائۃ حاضرہ (موجودہ صدی کا مجدد) کے خطاب سے فراز ہوئے اور آپ کی جملہ تصانیف جو اس وقت دوسو کے قریب تھیں، ان کا نصف حصہ یعنی تقریباً ایک سو کتابوں کا پہلا ایڈیشن یہیں مطبع تحفہ حنفیہ سے شائع ہوا۔
۱۳۲۴ھ مطابق ۱۹۰۲ ء میں مکہ معظمہ، مدینہ منورہ اور دوسرے ممالک کے علماء ومشائخ نے بھی آپ کی مجددیت کا برملا اعتراف کیا، اور آپ کو امام الائمہ کے لقب سے یاد کیا۔ ۱۳۳۰ھ مطابق ۱۹۱۱ء کو آپ نے قرآن کریم کا اردو زبان میں صحیح ترین ترجمہ کنز الایمان عطا فرمایا۔
بارہ جلدوں میں فقہ اسلامی کا عظیم انسائیکلو پیڈیا "فتاویٰ رضویہ" عالم اسلام کو عطا فرمایا (تخریج کے ساتھ 33 جلدوں میں دستیاب ہے) پھر احیائے علوم اور تجدید دین کے ان داخلی امور کی انجام دہی کے ساتھ خارجی امور کی طرف بھی عنان توجہ منعطف کی۔ فلسفیوں کے ہذیانات واضح کیے، سائنس کی قد آور شخصیتوں نیوٹن، کاپر نیکس، کیپلر اور آئن سٹائن کا تعاقب کرتے ہوئے ان کے بعض غلط نظریات کا انھیں کے اصولوں کی روشنی میں رد فرمایا۔ امریکہ کے مشہور منجم پروفیسر ایف پورٹا کی غلط پیشین گوئی کی دھجیاں اڑائیں، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر ماہر ریاضیات پروفیسر ڈاکٹر سر ضیاء الدین کے لا ینحل سوالوں کو حل فرمایا، جس کے اعتراف میں ان کو کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ:
"نوبل انعام کی مستحق تو در حقیقت یہ ہستی ہے جو نام ونمود سے دور، کنج خمولی کے اندر بوریائے بے ریائی پہ بیٹھی خوش ہے۔"
قمری مہینے کے اعتبار سے ۲۷ سال کچھ ماہ کی عمر پا کر ۲۵ صفر ۱۳۴۰ھ مطابق ۲۸ اکتوبر ۱۹۲۱ء بروز جمعہ کو اس دار فانی سے دار آخرت کی طرف رحلت فرمائی۔
امام اہلسنت کے علم نے تمام شعبہ ہائے علوم کا اور آپ کی شخصیت نے بحیثیت قائد وراہنما تمام شعبہ ہائے حیات کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ جناب سید محمد جیلانی بن سید محامد اشرف ایڈیٹر "المیزان" بمبئی امام اہلسنت کے تبحر علمی کے متعلق یوں رقمطراز ہیں۔
"اگر ہم ان کی علمی وتحقیقی خدمات کو ان کی ۲۶ سالہ زندگی کے حساب سے جوڑیں تو ہر ہر 5 گھنٹے میں امام احمد رضا ایک کتاب ہمیں دیتے نظر آتے ہیں۔ ایک متحرک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا جو کام تھا امام احمد رضا نے تن تنہا انجام دے کر اپنی جامع شخصیت کے زندہ نقوش چھوڑے۔"1
حاشیہ تفسیر بیضاوی، حاشیہ تفسیر خازن، حاشیہ در منثور، تفسیر سورۂ والضحیٰ، تفسیر باء بسم الله
الحجة المؤتمنة فی آية الممتحنة، النفخة الفائحة من مسك سورة الفاتحة، نائل الراح فی فرق الريح والرياح، الزلال الانقى من بحر سبقة الاتقى، انوار الحلم فی معانى ميعاد استجب لكم، کنز الايمان فی ترجمة القرآن، حاشیه معالم التنزیل، انباء الحی ان كتابه المصون تبيان لكل شئی، الصمصام على مشكك فی آية علوم الارحام
ترجمۂ قرآن کنز الایمان امام اہلسنت کا عظیم کارنامہ ہے، اردو میں چند تراجم براہ راست متن قرآن سے کئے گئے ہیں باقی تمام تراجم یا تو سابقہ تراجم کا ترجمہ وتسہیل ہیں یا تفہیم یا پھر لفظی تراجم سے اپنے اپنے مذاق کے مطابق با محاورہ کر لیے گئے ہیں ایسے مترجمین عربی میں نا واقف ہیں، بہر کیف امام اہلسنت کے ترجمہ قرآن کو یہ امتیاز خاص حاصل ہے کہ وہ تراجم کو نہیں بلکہ متن قرآن کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔ امام اہلسنت بیک وقت زبان عربی کے صاحب طرز ادیب وشاعر اور زبان اردو کے صاحب طرز ادیب وشاعر تھے، زبان وادب کے نشیب وفراز سے با خبر تھے، تفسیر وحدیث پر گہری نظر رکھتے تھے اور مختلف علوم وفنون کے جامع تھے۔ ان کی نظر علوم قرآن کی وسعتوں اور پہنائیوں پر تھی اس لیے انہوں نے ایسا ترجمہ کیا کہ دور جدید کا کوئی علمی اکتشاف یا سائنسی تجربہ، ترجمہ کی معنویت کو مجروح نہیں کر سکتا۔ معاشیات، فلکیات کے بعض جدید مسائل سامنے آئے تو ان عقدوں کا حل کنز الایمان میں نظر آیا دوسرے تراجم ساتھ نہ دے سکے۔ کنز الایمان 1330ھ/ 1911ء میں منظر عام پر آیا یعنی محدث بریلوی کے وصال سے دس برس قبل۔ یہ وہ دور تھا جب ہر مسلک ومذہب کے اکابر علماء موجود تھے مگر کسی نے کنز الایمان پر حرف گیری نہ کی۔ کنز الایمان پر متعدد علماء اور دانشوروں نے مقالات لکھے ہیں۔
ایک اہل حدیث عالم سعید بن عزیز یوسف زئی نے اپنے مقالہ میں کنز الایمان کی ایک اہم خصوصیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:
"یہ ایک ایسا ترجمہ قرآن مجید ہے جس میں پہلی بار اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ جب ذات باری تعالیٰ کے لیے بیان کی جانے والی آیتوں کا ترجمہ کیا گیا ہے تو بوقت ترجمہ اس کی جلالت، علوت، تقدسی وعظمت وکبرائی کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے جب کہ دیگر تراجم خواہ وہ اہل حدیث سمیت کسی بھی مکتب فکر کے علماء کے ہوں ان میں یہ بات نظر نہیں آتی، اسی طرح وہ آیتیں جن کا تعلق محبوب خدا شفیع روز جزا، سید الاولین والآخرین، امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے ہے جن میں آپ سے خطاب کیا گیا ہے تو بوقت ترجمہ جناب مولانا احمد رضا خاں صاحب نے یہاں پر بھی اوروں کی طرح نقلی ولغوی ترجمے سے کام نہیں لیا بلکہ صاحب ما ینطق عن الهوى اور ورفعنا لک ذکرک کے مقام عالی شان کو ہر جگہ ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو دیگر تراجم میں بلکل ہی نا پید ہے۔"
کنز الایمان پر امام اہلسنت کے خلیفہ صدر الافاضل علامہ مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی نے حواشی لکھے ہیں جو نہایت مختصر اور جامع ہیں، عنوان ہے خزائن العرفان فی تفسیر القرآن۔ یہ کنز الایمان کے ساتھ ہی شائع ہوئے ہیں، دوسری زبانوں میں بھی کنز الایمان کے تراجم ہوئے ہیں۔ مثلاً لندن یونیورسٹی کے پروفیسر محمد حنیف اختر فاطمی نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے جو لاہور سے شائع ہو چکا ہے، دوسرا انگریزی ترجمہ پروفیسر شاہ فرید الحق نے کیا ہے اور اس پر مفید حواشی کا اضافہ کیا ہے جو کراچی سے شائع ہو چکا ہے۔ تیسرا انگریزی ترجمہ مارہرہ (بھارت، یوپی) کے ایک بزرگ کر رہے ہیں۔ اسی طرح سندھی میں مفتی محمد رحیم سکندری نے کنز الایمان کا ترجمہ کیا ہے جو لاہور سے شائع ہو چکا ہے۔ ایک دوسرے بزرگ نے بھی سندھی میں ترجمہ کیا ہے۔ بنگلہ زبان میں بھی کنز الایمان کا ترجمہ ہوا ہے جو رضا اکیڈمی (چاٹگام) نے قسط وار شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی اس کے تراجم ہوئے ہیں، سرتاج حسین رضوی صاحب (بریلوی) نے ڈچ زبان میں ترجمہ کیا۔
حاشیۃ الاتقان للسیوطی
رسم خط قرآن:
جالب الجنان فی رسم احرف من القرآن
حاشیہ صحیح بخاری، حاشیہ صحیح مسلم، حاشیہ سنن نسائی، حاشیہ جامع ترمذی، حاشیہ سنن ابن ماجہ، حاشیہ عمدة القاری شرح بخاری، حاشیہ فتح الباری شرح بخاری، حاشیہ مسند امام احمد بن حنبل، حاشیہ شرح معانی الآثار للطحاوی، حاشیہ سنن دارمی، حاشیہ تیسیر شرح جامع صغیر للسیوطی، حاشیہ مسند امام اعظم، حاشیہ کتاب الآثار، حاشيۃ الخصائص الكبرى للسيوطی، حاشیہ کنز العمال، حاشیہ الترغیب والترہیب، حاشیہ القول البديع للسخاوی، حاشیہ المقاصد الحسنہ، حاشیہ جمع الوسائل فی شح المشائل، حاشیہ فیض القدیر شرح جامع صغیر، حاشیہ مرقاة المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابيح، حاشیہ اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰة، حاشیہ الآلی المصنوعہ فی الاحاديث الموضوعہ، حاشیہ الموضوعات الكبير للعلى القاری، انباء الحذاق بمسالك النفاق، تلألؤ الافلاک بجلال احادیث لولاک، سمع وطاعۃ فی احاديث الشفاعۃ، الاحاديث الروايۃ لمدح الامير معاويۃ، ذيل المدعا لاحسن الوعاء، اسماء الاربعين فی شفاعۃ سيد المحبوبين، القيام المسعوذ بتنقيح المقام المحمود۔
الاجازة الرضويۃ لمبجل مكۃ البهيۃ، الاجازات المتينۃ لعلماء بكۃ والمدينۃ، النور والبهاء فی اسانيد الحديث وسلاسل اولياء الله۔
شرح نخبۃ الفكر، الهاد الكاف فی حكم الضعاف، مدارج طبقات الحديث، الفضل الموہبی فی معنى اذا صح الحدیث فھو مذہبی، الافادات الرضویۃ (فی اصول الحدیث)، حاشیہ فتح المغیث۔
حاشیہ نصب الرایہ تخریج احادیث الہدایہ، النجوم الثواقب فی تخريج احاديث الكواكب، البحث الفاحص عن طرق احاديث الخصائص، الروض البهيج فی آداب التخريج۔
حاشیہ کشف الاحوال فی نقد الرجال، حاشیہ العلل المتناہیہ
حاشیہ تقریب التہذیب، حاشیہ تہذیب التہذیب، حاشیہ الاسماء والصفات، حاشیۃ الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، حاشیہ تذكرة الحفاظ، حاشیہ میزان الاعتدال، حاشیہ خلاصۃ تہذیب الكمال۔
حاشیہ مجمع بحار الانوار للطاہر الپٹنی
حاشیہ فتاویٰ عالمگیری، حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، حاشیہ فتح القدير لابن الہمام، حاشیہ بدائع الصنائع، حاشیہ البحر الرائق، حاشیہ الجوہرة النیرۃ، جد المتار علی رد المختار (خمس مجلدات)، حاشیہ مجمع الانہر، حاشیہ مراقی الفلاح، حاشیۃ الاسعاف فی احکام الاوقاف، حاشیہ اتحاف الابصار، حاشیہ الاعلام بقواطع الاسلام، حاشیہ الاصلاح شرح الایضاح، حاشیہ فتاویٰ بزازیہ، حاشیہ تبیین الحقائق، حاشیہ جواہر اخلاطی، حاشیہ جامع الفصولین، حاشیہ جامع الرموز، حاشیہ جامع الصفار، حاشیہ خلاصۃ الفتاویٰ، حاشیہ رسائل الارکان، حاشیہ شفاء الصفار، حاشیہ عنایۃ طلبی (شرح الہدایہ)، حاشیہ العقود الدريۃ تنقیح فتاویٰ الحامدیۃ،حاشیہ فوائد کتب عدیده، حاشیہ حلیۃ المجلی، حاشیہ خادمی، حاشیہ درر الحکام، حاشیہ منحۃ الخالق شرح کنز الدقائق، حاشیہ غنیۃ المستملی، حاشیہ شرح مسلک متقسط، حاشیہ فتاویٰ خانیہ، حاشیہ فتاویٰ سراجیہ، حاشیہ فتاویٰ خیریہ، حاشیہ فتاویٰ حدیثیہ، حاشیہ فتاویٰ زربینیہ، حاشیہ فتاویٰ غیاثیہ، حاشیہ فتاویٰ عزیزیہ شاه عبد العزیز دہلوی، حاشیہ فتح المعین، حاشیہ معین الحکام، حاشیہ کتاب الخراج، حاشیہ منۃ الجلیل، اعلام الاعلام بان هندوستان دار الاسلام، حكام الاحكام فی التناول من يدمن مالہ حرام، الآمر باحترام المقابر، اقامۃ القيامۃ على طاعن القيام لنبی تھامۃ، اجود القرى لمن يطلب الصحۃ فی اجارة القرى، انوار الانتباه فی حل نداء يا رسول الله، ازين كافل لحكم القعدة فی المكتوبۃ والنوافل، انجح الجد فی حفظ المسجد، ابجل ابداع فی حد الرضاع، الاحكام والعمل فی اشكال الاحتلام والبلل، الجود الحلو فی احكام الوضو، تنوير القنديل فی اوصاف المنديل، لمع الاحکام ان الا وضوء من الزکام، الطراز المعلم فیما ھو حدث من احوال الدم، نبہ القوم ان الوضوء من ای نوم، تبیان الوضوء، بارق النور فی مقادیر ماء الطھور، برکات السماء فی حکم اسراف الماء، ارتفاع الحجب عن وجوہ قراۃ الجنب، الطرس المعدل فی حد الماء المستعمل، النميقۃ الانقى فى فرق الملاقی والملقىٰ، الهنى النمير فى الماء المستدير، رحب الساحۃ فی مياه لا يستوى وجھھا وجوفھا فی المساحۃ، ہبۃ الجبير فی عمق ماء كثير، النور والنورق لاسفار الماء المطلق، عطاء النبی لافاضۃ احكام ماء الصبی، الدقۃ والتبيان لعلم الرقۃ والسيلان، حسن التعمم لبيان حد التيمم، سمع الداماء فيما يورث العجز عن الماء، الظفر لقول زفر، المطر السعيد على نبت جنس ارض الصعيد، الجد السدید فی نفی الاستعمال عن الصعيد، قوانين العلماء فی متيمم علم عند زيد ماء، الطلبۃ البديعۃ فی قول صدر الشريعۃ، مجلى الشمعۃ الجامع حدث ولمعۃ، سلب القلب عن القائلين بطہارة الكلب، الأحلى من السكر الطلبۃ سكر وسر، حاجز البحرين الواقی عن جمع الصلاتين، نہج السلامہ فی حكم تقبيل الابهامين فی الاقامۃ، ہدايۃ المتعال فی حد الاستقبال، النھی الأكيد عن الصلوة وراء عدى التقليد، القلادة المرصعۃ فی نحر الاجوبۃ الأربعۃ، القطوف الدانیۃ لمن احسن الجماعۃ الثانیۃ، تيجان الصواب فی قيام الامام فی المحراب، اجتناب العمال عن فتاوىٰ الجهال، وصاف الرجح فی بسملۃ التراويح، التھصیر المنجد بان صحن المسجد مسجد، رعايۃ المذھبین فی الدعاء بين الخطبتین، ما يجلى الأصر عن تحديد المصر، الرد الأشد البهى فى هجر الجماعۃ علی الگنگھی، بذل الجوائز علی الدعاء بعد صلاۃ الجنائز، النهی الحاجز عن تكرار صلاة الجنائز،الهادی الحاجب عن جنازة الغالب، الحرف الحسن فی الكتابۃ على الكفن، جلى الصوت لنهى الدعوة امام الموت، بريق المنار بشموع المزار، جمل النور فی نهى النساء عن زيارة القبور، الحجۃ الفائحۃ لطيب التعیین والفاتحۃ، ايتان الارواح لديارهم بعد الرواح، حيات الموات فی بيان سماع الاموات، الوفاق المتين بين سماع الدفين واليمين، تجلى المشكوٰة لا نارة اسئلۃ الزكوٰة، اعز الاكتناه فی رد صدقۃ مانع الزكوٰة، رادع التعسف عن الامام ابی یوسف، افصح البيان فی حکم مزارع هندوستان، الزهر الباسم فى حرمۃ الزكوٰة على بنی ھاشم، ازكى الاهلال با بطال ما احدث الناس فی امر الهلال، طرق اثبات الهلال، البدور الاجلۃ فی امور الأهلۃ، نور الادلۃ للبدور الاجلۃ، رفع العلۃ عن نور الادلۃ، الاعلام بحال النجور فی الصيام، تفاسير الاحكام لفديۃ الصلوٰة والصيام، هدايۃ الجنان باحكام رمضان، العروس المعطار فی زمن دعوة الافطار، صیقل الرين عن احكام مجاورة الحرمين، انوار البشارة فی مسائل الحج والزيارة، عباب الانواران لانكاح بمجرد الاقرار، ما حی الضلالۃ فی انكحۃ الهند وبنجالہ، ہبۃ النساء فی تحقيق المصاهرة بالزنا، ازالۃ العار بحجر الکرائم عن کلاب النار، تجويز الرد عن تزويج الابعد، البسط المسجل فی امتناع الزوجۃ بعد الوطی للمعجل، رحيق الاحقاق فی كلمات الطلاق، آکد التحقيق بباب التعليق، الجوهر الثمين فی غلل نازلۃ اليمين، الطائب التهانی النكاح الثانی، جوال العلو لتبين الخلو، رد القضاة الى حكم الولاة، الصافيۃ الموحیۃ لحكم جلد الاضحیۃ، انصح الحكومۃ لفصل لخصومۃ،معدل الزلال فی اثبات الهلال، نقاء النيرة فی شرح الجوهرة ملقب بہ النیرۃ الوضيۃ فی شرح الجوهرة المضئیۃ (للامام صالح جمل اللیل مکی)، الطرة الرضيۃ على النيرة الوضيۃ، اجل التجير فی حكم السماع والمزامير، اعالی الافادة فی تعزيۃ الهندو بيان الشهادة، افقہ المجادبۃ عن حلف الطالب على طلب المواثبۃ، احسن الجلوة فی تحقيق الميل والذراع والفرسخ والغلوة، شوارق النسافی حد المصر والفنا، لمعۃ الشمعۃ فی اشتراط المصر للجمعۃ، اراءة الادب لفاضل النسب، احکام شریعت سہ حصص، عرفان شریعت سہ حصص، امام الكلام فی القرأة خلف الامام، اسنى المشكوٰة فی تنقيح احكام الزكوٰة، الاسد الصؤل، بذل الصفا لعبد المصطفى، باب غلام مصطفی، بدر الانوار فی آداب الآثار، ابر المقال فی استحسان قبلۃ الاجلال، الكشف شافيا حكم فونو جرافيا، تیسیر الماعون للسكن فی الطاعون، تعبیر خواب وہوائے احباب، جمل مجليۃ ان المكروة تنزيها ليس بمعصيۃ، الجوهر الثمین فيما تنعقد بہ اليمين، الحلاوة والطلاوة فی موجب سجود التلاوة، حكم رجوع من ولى فی نفقۃ العرس والجهاز والحلى، حك العيب فی حرمۃ تسويد الشيب، احقۃ المرجان لمهم حكم الدخان، حق الاحقاق فی حادثۃ من نوازل الطلاق، الحليۃ الاسمى لحكم بعض الاسماء، الحق المجتلی فی احكام المبتلىٰ، خیر الآمال فی حكم الكسب والسوال، كفل الفقیہ الفاهم فی احكام قرطاس الدراهم، نوٹ (کرنسی) سے متعلق مسائل، كاسر السفيہ الواهم فی ابدال قرطاس الدراهم، الذيل المنوط الرسالۃ النوط، رامی زاغیاں معروف بہ دفع زیغ زاغ، الرمز الراسف على سوال مولانا آصف، الزبدة الزكیۃ فی تحريم سجود التحیۃ، رویت ہلال رمضان، الرمز المرصف على سوال مولانا السيد آصف، سبل الاصفيا فی حكم الذبح للاوليا، ستر جميل فی مسائل السراويل، السهم الشهابی على خداع الوهابی، السنیۃ الانیقۃ فی فتاوىٰ افریقہ، السيف الصمدانی على التهانی والمكرانی، سلامۃ الله لاهل السنۃ، شفاء الوالہ فی صور الحبيب ومزاره ونعالہ، الشرعۃ البھیۃ فی تحديد الوصیۃ، صفائح اللجين فی كون التصافح بكفى اليدين، طوالع النور فی حكم السرج على القبور، الطيب الوجيز فی امتعۃ الورق ولا بريز، عطايا القدير فی حكم التصوير، عبقری حسان فی اجابۃ الاذان، فتح الملیک فی حکم التملیک، الفقہ التجيلی فی عجين النار جيلی، الكاس الدهاق باضافۃ الطلاق، لمعۃ الضحیٰ فی اعفاء اللحیٰ، اللؤلؤ المعقود لبيان حكم امرأة المفقود، المقالۃ المسافرة عن احكام البدعۃ المكفرة، الجمل المسددان ساب المصطفىٰ مرتد، منزع المرام فی التدادی بالحرام، المنح الملیحہ فيما نهى عن اجزاء الذبیحہ، المنى والدرر لمن عمد منی آرڈر، مروج النجا لخروج النساء، الرد لناهز على ذام النهی الحاجز، شمائم العنبر فی ادب النداء امام المنبر، مفاد الجر فی الصلوٰة بمقبرة او جنب قبر، مسائل سماع، المعركۃ اللمعا على طاعن نطق بكفر طوعا، نسيم الصبا فی ان الاذان يحول الوبا، نقد البيان لحرمۃ ابنۃ اخى اللبان، نور الجوهرة فی السمسرة والسور كرة، نور عینى فى الانتصار للامام العینی، وشاح الجید فی تحليل معانقۃ العيد، های الاضحیۃ بالشاء الهنديۃ، لب الشعور باحكام الشعور، نابغ النور على سوالات جبلفور، انفس الفكر فی قربان البقر، مسئلہ اذان کا حق نما فیصلہ، رویت ہلال کا ضروری فتویٰ، كمال الاكمال شرح جمال الاجمال، اضافات افاضات، الجلى الحسن فی حرمۃ ولد اللبن، ترجمہ شمائم العنبر، نفى العار من معائب المولوى عبد الغفار، وقايۃ اهل السنۃ عن اہل البدعۃ، العطايا النبویۃ فی الفتاوىٰ الرضویۃ (33 جلدیں)
فقہ اسلامی کا عظیم انسائیکلو پیڈیا ہے جس میں بہت سے پیچیدہ اور مشکل مسائل پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ جسے ایک دو دلیل سے نہیں، دس بیس برہان سے نہیں بلکہ سینکڑوں دلائل وبراہین سے مزین کر کے پیش فرمایا گیا ہے۔
فتاویٰ رضویہ کی عربی عبارتوں کا ترجمہ اور حوالہ جات کی تخریج وتصحیح اور ترتیب وفہارس وغیرہ کا اہم ترین کام دنیائے سنیت کی عظیم شخصیت حضرت علامہ مفتی عبد القیوم ہزاروی کی سرپرستی میں انجام پایا، جس کی تینتیس ضخیم جلدیں ہوگئی ہیں۔
حاشیۃ الحموی على الاشباه والنظائر، حاشیۃ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت، حاشیۃ مسلم الثبوت، التاج المكلل فی انارة مدلول كان يفعل، تبويب الاشباه والنظائر، السيوف المخیفۃ على عائب ابی حنیفۃ۔
حاشیہ رسائل الشامی (فی رسم المفتی)، اجلى الاعلام بان الفتوىٰ مطلقا علىٰ قول الامام، فصل القضا فی رسم الافتاء۔
تجلیۃ السلم فی مسائل نصف من العلم، ندم النصرانی والتقيم الايمانی، المقصد النافع فى عصوبۃ النصف الرابع، طيب الامعان فی تعدد الجهات والابدان۔
الجام الصاد عن سنن الضاد، نعم الزاد لروم الضاد، يسر الزاد لمن ام الضاد، حاشیۃ المنح الفكریۃ۔
حاشیہ مسایره، حاشیہ مسامره، حاشیہ شرح مواقف، حاشیہ شرح مقاصد، حاشیہ خیالی علی شرح العقائد، حاشیہ حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ، الادلۃ الطاعنۃ فی اذان الملاعنۃ، اعتقاد الاحباب فی الجميل والمصطفىٰ والآل والاصحاب، امور عشرین در امتیاز عقائد سنیین، الاهلال بفيض الأولياء بعد الوصال، اجلی نجوم رجم بر ایڈیٹر النجم، اصلاح النظير، اكمل المبحث على اہل الحدث، الاستمداد علی اجيال الارتداد (منظوم)، انتصار الهدىٰ، ازاحۃ العيب بسيف الغيب، انوار المنان فی توحيد القرآن، ابراء المجنون عن انتها كہ علم المكنون، افتائے حرمین کا تازہ عطیہ، اظلال السحابۃ باجلال الصحابۃ، اشد الباس علی عابد الخناس، البشرى العاجلۃ من تحف آجلۃ، البارقۃ الشارقۃ على مارقۃ المشارقۃ، پیکان جانگد از بر جان مکذبان بے نیاز، التحبير بباب التدبير، ثلج الصدر لايمان القدر، تمهید ایمان بآیات قرآن، حسام الحرمين على منحر الكفر والمين، بین احكام وتصديقات أعلام، خلاصہ فوائد فتاویٰ، اللمم الملكیۃ والتسجيلات المكیۃ، مہری تصدیقات مکہ، الفواكہ الهنیۃ والتسجيلات المدینۃ، بحار تصدیقات مدینہ، برکات مدینہ از عمده شافعیہ، هدايۃ المعلمين الى ما يجب فی الدين، الجلاء الكامل لعين قضاة الباطل، حل خطا الخط، حجب العوار عن مخدوم بهار، حق کی فتح مبین، خالص الاعتقاد، دوام العيش فی الائمۃ من قريش، سبحان السبوح عن عيب كدب مقبوح، دامان باغ سبحان السبوح، سبحان القدوس عن تقديس نجس منكوس، دفعۃ الباس على جاحد الفاتحۃ والفلق والناس، دافع الفساد عن مراد آباد، رد الرفضۃ، الرائحۃ العنبریۃ من المجمرة الحيدریہ، رفع العروش الخاویۃ من ادب الامیر معاویۃ، رسالہ عقائد، السعى المشكور فى ابداء الحق المهجور، سوالات حقائق نما برؤس ندوة العلماء، فتاوى القدوة لكشف دفين الندوة، قهر الديان على مرتد بقادیان، السوء والعقاب على المسيح الكذاب، المبین ختم النبیین، سيف العرفان لدفع حزب الشيطان، سد القرار، شرح المطالب فی مبحث ابی طالب، منتھی التفصيل فی مبحث التفضيل، الصارم الالہٰی على عمائد المشرب الواهی، ضوء النهایۃ فی اعلام الحمد و الهدایۃ، باب العقائد والكلام، بركات الامداد لاهل الاستمداد، العذاب البئيس، فيح النسرين بجواب الاسئلۃ العشرين، الفرق الوجيز بين السنی العزيز والوهابی الرجيز، قوارع القهار على المجسمۃ الفجار، القمع المبين لآمال المكذبين، الكوكبۃ الشهابیۃ فی كفريات ابی الوهابیۃ، سل السيوف الهندیۃ على كفريات بابا النجدیۃ، اللآمۃ القاصفۃ لكفريات الملاطفۃ، اللؤلؤ المكنون فی علم البشير بما كان وما يكون، لمعۃ الشمعۃ لهدى شیعۃ الشنیعۃ، معتبر الطالب فی شيون ابی طالب، مطلع القمرين فی ابانۃ سبقۃ العمرين، غايۃ التحقيق فى امامۃ العلى والصديق، مال الحبيب بعلوم الغيب، اراحۃ جوانح الغيب، معارك الجروح على التوهب المقبوح، مقتل کذب وکید، حاسم المفترى على السيد البرى، النير الشهابی على خداع الوهابی، السهم الشهابی على خداع الوهابی، بیبل مژده آرا وکیفر کفران نصاریٰ، مبين الهدى فی نفى امكان مثل المصطفىٰ، الجبل الثانوى على كلیۃ التانوى، تحبير البحر بقصم الجبر، یک گزوسہ فاختہ بیمناک، الهدایۃ المباركہ فی خلق الملائكہ، فتاوى الحرمين برجف ندوة المین، فتوى مكۃ لفت الندوة المندكۃ، ترجمۃ الفتویٰ وجہ ہدم البلویٰ، تصديقات الحرام، کشف تصحیحات، فتوى المدینۃ المنورة بدك ندوة مزورة، ترجمۃ الفتوىٰ سالبۃ الاہواء، خلص فوائد فتوىٰ، النذير الهائل لكل جلف جائل، رشاقۃ الكلام فی حواشی اذاقۃ الآثام، البرق المخيب على طيب، النعيم المقيم فی فرحۃ مولد النبی الكريم، ماحیۃ العيب بايمان الغيب، مزق تلبيس وادعائے تقدیس، الدولۃ المكیۃ بالمادة الغیبیۃ، الفيوضات الملكیۃ لمحب الدولۃ المكیۃ، الدلائل القاهره على الكفر النياشره، المقال الباهران منكر الفقہ كافر، الجرح الوالج فی بطن الخوارج، حاشیہ تحفہ اثنا عشریہ، حاشیہ مفتاح السعاده، حاشیہ عقائد عضدیہ، حاشیہ شرح فقہ اکبر، حاشیہ الصواعق المحرقہ، حاشیہ التفرقۃ بين الاسلام والزندقۃ، حاشیہ تحفۃ الاخوان۔
مراسلات سنت وندویہ، ابحاث اخیره، اطائب الصيب على ارض الطيب، یاد داشت عبارات سد الفرار۔
حاشیہ شرح شفا ملا علی قاری، حاشیہ زرقانی شرح مواہب لدنیہ، تجلى اليقين بان نبینا سید المرسلین، الامن والعلى لناعتى المصطفىٰ بدافع البلاء ملقب بلقب تاریخی، اكمال الطامۃ على شرك سوى بالامور العامۃ، اجلال جبريل بجعلہ خادماً للمحبوب الجميل، انباء المصطفى بحال سر واخفى، زواهر الجنان من جواهر البيان معروف بہ، سلطنۃ المصطفىٰ فی ملکوت كل انورىٰ، شمول الاسلام لاصول الرسول الكرام، صلات الصفا فی نور المصطفىٰ، عروس الاسماء الحسنىٰ فيما لنبینا من الاسماء الحسنىٰ، فقہ شهنشاه وان القلوب بيد الحبيب بعطاء الله، قمر التمام فی نفی الظل عن سيد الانام، نفى النفئ عمن بنوره انار كل شئ، هدى الحيران فی نفی الفئ عن سید الاکوان، طيب المنیہ فی وصول الحبيب الى العرش والرویۃ معروف بہ منبہ المنیہ بوصول الحبيب الى العرش والرویۃ، منیۃ اللبيب ان التشريع بيد الحبيب، الموهبۃ الجديدة فی وجود الحبيب بمواضع عدیدۃ، عروس مملكۃ الله محمد رسول الله ﷺ، الميلاد النبویہ فی الالفاظ الرضویہ، نطق الهلال بارخ ولاد الحبيب والوصال، جمان التاج فی بيان الصلوٰة قبل المعراج۔
الكلام البهى فی تشبیہ الصديق بالنبی ﷺ، وجہ المشوق بجلوة اسماء الصديق والفاروق، تنزیہ المكانۃ الحيدریۃ عن وصمۃ عهد الجاهلیۃ، احياء القلب الميت بنشر فضائل اهل البيت، ذب الاهواء الواهیۃ فی باب الامير معاویۃ، عرش الاعزاز والاكرام لاول ملوک الاسلام، رفع العروش الخاویۃ من ادب الامير معاویۃ، جميل ثناء الائمۃ على علم سراج الامۃ، فتویٰ کرامات غوثیہ، انجاء البرى عن وسواس المفترى، مجیر معظم شرح قصیده اکسیر اعظم۔
اول من صلى الصلوات الخمس، اعلام الصحابۃ الموافقين للامير معاویۃ وام المومنين، جمع القرآن وبم عزوه العثمان۔
حاشیہ الیواقیت والجواہر، حاشیہ احیاء علوم الدين للغزالی، حاشیہ الابریز، حاشیہ الزواجر، حاشیہ مدخل لابن امیر الحاج، حاشیہ میزان الشريعۃ الكبرىٰ، بوارق تلوح من حقیقۃ الروح، التلطف بجواب مسائل التصوف، كشف حقائق واسرار دقائق، مقال عرفا باعزاز شرع وعلماء، طرد الافاعی عن حمى هاد رفع الرفاعی، کشکول فقیر قادری۔
الياقوتۃ الواسطۃ فی قلب عقد الرابطۃ، نقاء السلافۃ فی البيعۃ والخلافۃ۔
الوظیفۃ الكريمۃ، شجرئہ طیبہ قادریہ برکاتیہ، زهرة الصلاة من شجرة اكارم الهداة، ما قل وكفى من ادعيۃ المصطفىٰ ﷺ، المنۃ الممتازه فی دعوات الجنازة، سلسلۃ الذهب نافيۃ الارب، ازهار الانوار من صبا صلاة الاسرار، انهار الانوار من يم صلاة الاسرار۔
اعجب الامداد فی مكفرات حقوق العباد، شرح الحقوق الطرح العقوق (حقوق والدین)، مشعلۃ الارشاد الى حقوق الاولاد۔
تدبیر فلاح ونجات واصلاح، وصایا شریف، ابانۃ المتواری فی مصالحۃ عبد الباری اول، ابانۃ المتواری فی مصالحۃ عبد الباری دوم، ابانۃ المتواری فی مصالحۃ عبد الباری سوم۔
مکتوبات اہلسنت، بعض مکاتیب حضرت مجدد، مکتوبات امام احمد رضا (اول)
الخطبات الرضویۃ فی المواعظ والعيدين والجمعۃ، خطبات اعلیٰحضرت۔
اکسیر اعظم، حدائق بخشش اول، حدائق بخشش دوم، آمال الابرار وآلام الاشرار، چراغ انس، حضور جان نور، سلام وسیر، سراپا نور، مناقب صدیقہ ، وظائف قادریہ، حمائد فضل رسول (بنام قصیدتان)، مداح فضل رسول (رائعتان)، نذر گدا در تہنیت شادی اسرا، ذریعہ قادریہ، فضائل فاروق، نظم معطر، مشرقستان قدس، نعت واستعارات، اتحاف العلى لبكر فكر السنبلی، جاه القصيدة البغدادیۃ معروف بہ، الزمزمۃ القمریۃ، فی الذب عن الخمریۃ، عذاب اولیٰ بررد او ادنیٰ، شرح مقامہ مذاقیہ۔
شرح ہدایۃ النحو، تبلیغ الاحكام الى درجۃ الكمال فی تحقيق، رسالۃ المصدر والافعال۔
حاشیہ علم الصیغہ۔
حاشیہ تاج العروس، حاشیہ صراح، فتح المعطى بتحقيق الخاطى والمخطى۔
حاشیہ میزان الافکار۔
حاشیہ تعطیر الانام۔
الفوز بالآمال فی الاوفاق والاعمال۔
اطائب الاكسير فی علم التكسير، رسالہ در علم تکسیر، ۱۵۲ امربعات، حاشیہ الدر المكنون۔
درأ القبح عن درك الصبح، الانجب الانيق فی طرق التعلیق، تاج توقیت، زيج الاوقات للصوم والصلوٰة، البرهان القويم على العرض والتقويم، كشف العلۃ عن سمت القبلۃ، ترجمہ قواعد نائیٹکل المنك، جدول ضرب، جدول اوقات، استنباط الاوقات، تسہیل التعديل، جدول برائے جنتری شصت سالہ، حاشیہ جامع الافکار، حاشیہ خزانۃ العلم، حاشیہ زبدة المنتخب، طلوع وغروب نیرین، ميول الكواكب وتعديل الايام، سمت قبلہ۔
رسالہ در علم لوگارثم، ستین ولوگارثم۔
حاشیہ بر جندی، حاشیہ زلالات البرجندی، مفسر المطالع للتقويم والطالع، حاشیہ زیج بہادر خانی، حاشیہ فوائد بہادر خانی، التعليقات على جامع بهادر خانی، التعليقات على الزيج الايلخانی، التعليقات على الزيج الأجد، تحقیقات سال مسیحی۔
حاشیہ تحریر الاقلیدس، اشكال الاقليدس لنكس اشكال الاقليدس، اعالى العطايا فی الاضلاع والزوايا، المعنى المجلى للمغنی والظلی، حاشیہ اصول الہندسہ۔
الجمل الدائرة فی خطوط الدائرة، الكلام الفهم فی سلاسل الجمع والتقسيم، مسئوليات السهام، حاشیہ خزانۃ العلم۔
جداول الرياضی، زاویۃ اختلاف المنظر، عزم البازی فی جو الرياضی، کشور اعشاریہ، الكسر العشرى، معدن علومی در سنین ہجری عیسووی ورومی۔
تلخیص مثلث کروی، رسالہ در علم مثلث کروی، وجوه زوایا مثلث کروی، رسالہ علم مثلث کروی۔
حاشیہ شرح چغمینی، مبحث المعادلۃ فات الدرجۃ الثانیۃ، قانون رويت أهلۃ، طلوع وغروب كواكب وقمر، الصراح الموجز فی تعديل المركز رويت الهلال، اقمار الانشراح لحقيقۃ الاصباح، جادة الطلوع والممر للسيارة والنجوم والقمر، حاشیہ کتاب الصور، حاشیہ شرح تذکره، حاشیہ طیب النفس، حاشیہ تصریح، حاشیہ علم الهيئاة، حاشیہ رفع الخلاف فی دقائق الاختلاف، حاشیہ ما شرح باکوره، رسالہ صبح۔
زاکی البہا فی قوة الكواكب وضعفہا، استخراج تقویمات کواکب، استخراج وول قمر بر راس، رسالہ ابعاد قمر، حاشیہ حدائق النجوم۔
حل المعادلات القوى المكعبات، رسالہ جبر ومقابلہ، حاشیہ القواعد الجليلۃ فی الاعمال الجبریۃ۔
کتاب الارثماطیقی، البدور فی اوج المجذور، الموہبات فی المربعات۔
حاشیہ میر زاہد، حاشیہ ملا جلال، رسالہ منطق۔
نزول آیات فرقان بسكون زمین وآسمان، فوز مبیق در رد حرکت زمین، الكلمۃ الملہمہ فی الحكمۃ المحكمۃ، معین مبین بہر دور شمس وسکون زمین، حاشیہ اصول طبعی، مقامع الحديد علىٰ خد المنطق الجديد۔
حبل الوارة، مقالہ مفرده، نشاط السكين على حلق البقر السمين، مرتجى الاجابات لدعاء الاموات۔
1۔ جزاء الله عَدُوَّهُ بابائہ ختم النبوة (1317ھ/ 1899ء):
اس تصنیف لطیف کا تعارف خود حضرت مصنف قدس سرہ کی زبانی سنئے، فرماتے ہیں: "اللہ ورسول ﷺ نے مطلقاً نفی نبوت تازہ فرمائی۔ شریعت جدیدہ وغیرہا کی کوئی قید کہیں نہ لگائی۔ اور صراحتہً خاتم بمعنی آخر بتایا۔ متواتر حدیثوں میں اس کا بیان آیا ہے اور صحابہ کرام سے اب تک تمام امت مرحومہ نے اس معنی ظاہر ومتبادر وعموم واستغراق حقیقی تام پر اجماع کیا کہ حضور ﷺ تمام انبیاء کے خاتم ہیں اور اس بناء پر سلفا وخلفاً ائمہ مذاہب نے نبی ﷺ کے بعد ہر مدعی نبوت کو کافر کہا، کتب احادیث وتفسیر وعقائد وفقہ ان کے بیانوں سے گونج رہی ہیں۔
فقیر غفرلہ المولی القدیر نے اپنی کتاب "جزاء الله عَدُوَّهُ بابائہ ختم النبوة" 1317ھ (دشمن خدا کے ختم نبوت کا انکار کرنے پر خدائی جزاء) میں اس کا مطلب ایمانی پر صحاح وسنن ومسانید ومعاجیم وجوامع سے ۱۲۰ حدیثیں اور تکفیر منکر پر ارشادات ائمہ وعلمائے قدیم وحدیث وكتب عقائد واصول فقہ وحدیث سے تیس نصوص ذکر کیے۔ وللہ الحمد
(فتاویٰ رضویہ مع تخریج وترجمہ عربی عبارات ج ۱۵)
٢۔ السُّوءُ وَالْعِقَابُ على المسيح الكذاب (1320ھ/ 1902ء):
۱۳۲۰ھ میں امرتسر سے مولانا محمد عبد الغنی نے ایک استفتاء بھیجا۔ سوال یہ تھا کہ ایک مسلمان نے ایک مسلمہ عورت سے نکاح کیا۔ عرصہ تک باہمی معاشرت رہی۔ پھر مرد، مرزائی ہو گیا، تو کیا اس کی منکوحہ اس کی زوجیت سے نکل گئی ہے؟ ساتھ ہی امرتسر کے متعدد علماء کے جوابات منسلک تھے۔
امام اہلسنت نے اس کے جواب میں ایک رسالہ "السُّوءُ وَالعِقَابُ عَلَى الْمَسِيحِ الكَذَّابِ" (جھوٹے مسیح پر عذاب وعقاب) قلمبند فرمایا جس میں دس وجہ سے مرزائے قادیانی کا کفر بیان کر کے فتاویٰ ظہیریہ، طریقہ محمدیہ، حدیقہ ندیہ برجندی شرح نقایہ اور فتاویٰ ہندیہ (عالمگیری) کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:
"یہ لوگ دین اسلام سے خارج ہیں اور ان کے احکام بعینہٖ مرتدین کے احکام ہیں۔"
پھر سوال کا جواب ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں:
"شوہر کے کفر کرتے ہی عورت نکاح سے فوراً نکل جاتی ہے۔ اب اگر بے اسلام لائے، اپنے اس قول ومذہب سے بغیر توبہ کیے یا بعد اسلام وتوبہ بغیر نکاح جدید کئے اس سے قربت کرے زنائے محض ہو اور جو اولاد ہو، یقیناً ولد الزنا ہو۔
یہ احکام سب ظاہر اور تمام کتب میں دائر وسائر ہیں۔
(فتاویٰ رضویہ مع تخریج وترجمہ عربی عبارات ج ۱۵)
3۔ قهر الديان على مرتد بقادیان (1323ھ/1905ء):
(عرضی نام "ہدایت نوری بجواب اطلاع ضروری")
یہ رسالہ بھی امام اہلسنت کے رشحات قلم سے ہے اس میں ختم نبوت کے منکر، کلمۃ اللہ حضرت عیسیٰ کے دشمن، جھوٹے مسیح، مرزائے قادیانی کے شیطانی الہاموں کا رد کر کے عظمت اسلام کو اجاگر کیا گیا ہے۔
4۔ المبین ختم النبیین (1326ھ/ 1908ء):
1326ھ میں بہار شریف سے مولانا ابو الطاهر نبی بخش نے ایک استفتاء بھیجا۔ جس میں دریافت کیا گیا کہ بعض لوگ "خاتم النبین" میں الف لام عہد خارجی قرار دیتے ہیں (یعنی حضور ﷺ بعض انبیاء کے خاتم ہیں) اور بعض اسے استغراقی قرار دیتے ہیں، (اب مطلب یہ ہوگا کہ آپ تمام انبیاء کے خاتم ہیں) ان میں سے کس کا قول صحیح ہے؟ امام اہلسنت نے
اس کے جواب میں ایک مختصر رسالہ تحریر فرمایا، آپ فرماتے ہیں:
جو شخص لفظ "خاتم النبیین" میں "النبیین" کو اپنے عموم واستغراق پر نہ مانے بلکہ اسے کسی تخصیص کی طرف پھیرے اس کی بات مجنون کی بکَ یا سرسامی کی بہک ہے، اسے کافر کہنے سے کچھ ممانعت نہیں کہ اس نے نص قرآنی کو جھٹلایا، جس کے بارے میں امت کا اجماع ہے کہ اس میں نہ کوئی تاویل ہے نہ تخصیص"}}پھر خاتم النبیین میں تاویل کی راہ کھولنے والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"آج کل قادیانی بک رہا ہے کہ خاتم النبیین سے ختم شریعت جدیدہ مراد ہے، اگر حضور کے بعد کوئی نبی اسی شریعت مطہرہ کا مُرَوِّجْ اور تابع ہو کر آئے ، کچھ حرج نہیں اور وہ خبیث اپنی نبوت جمانا چاہتا ہے۔"
یہ رسالہ مولوی اشرف علی تھانوی کے بارے میں ہے کہ ان کے ایک محب ومرید نے خواب میں دیکھا کہ وہ کلمہ طیبہ میں محمد رسول اللہ کی جگہ اشرف علی رسول اللہ پڑھتا ہے اور درود شریف میں بھی نام محمد ﷺ کی جگہ تھانوی صاحب کا نام لیتا ہے۔ مرید کی اس گمراہی پر تھانوی صاحب نے اس کو تسکین دی اور اپنی بزرگی کے اظہار کے لئے اپنے ماہانہ رسالے میں اس کو شائع بھی کر دیا۔ جب اس بارے میں امام اہل سنت سے سوال کیا گیا تو آپ نے اس کا جواب جبل الثانوی کی صورت میں تحریر فرمایا اور ان کی بد عقیدگی کی گرفت فرمائی۔
6۔ الجراز الديانی على المرتد القاديانی (1340ھ/ 1921ء):یہ رسالہ امام اہلسنت کی آخری تصنیف ہے۔ پیلی بھیت سے شاہ میر خان قادری نے ۳ محرم ۱۳۴۰ھ کو ایک استفتاء بھیجا جس کے جواب میں آپ نے یہ رسالہ "الجرازُ الدَّيَّانِی عَلَى الْمُرْتَدَ الْقَادِيَانِی" (قادیانی مرتد پر خدائی شمشیر بُرّاں) سپرد قلم فرمایا۔ ۲۵ صفر المظفر ۱۳۴۰ھ کو آپ کا وصال ہو گیا۔
سائل نے ایک آیت اور ایک حدیث پیش کی تھی۔ جس سے قادیانی، حضرت عیسیٰ کی وفات پر استدلال کرتے ہیں اور پوچھا تھا کہ اس استدلال کا جواب کیا ہے؟
امام اہلسنت نے اعتراض کا جواب دینے سے پہلے سات فائدے بیان کیے، جن میں واضح کیا کہ مرزائی حیات عیسیٰ کا مسئلہ کیوں اٹھاتے ہیں؟ دراصل مرزا کے ظاہر وباہر کفریات پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک ایسے مسئلے میں الجھتے ہیں جس میں اختلاف آسان ہے۔ پھر بھی یہ مسئلہ ان کے لئے مفید نہیں، پھر سات وجہ سے بتایا کہ یہ آیت قادیانیوں کی دلیل نہیں بن سکی اور حدیث کو دلیل بنانے کے دو جواب دیئے۔
مذکورہ بالا تمام رسائل فتاویٰ رضویہ مع تخریج وترجمہ عربی عبارات کی جلد ۱۴، ۱۵ سے لئے گئے ہیں۔
مرزائے قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کر کے قصر ختم نبوت میں نقب لگانے کی کوشش کی، علمائے اسلام نے حق کو واضح کیا، اور اس کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ امام اہلسنت نے جو استفتاع حرمین شریفین کے علماء کے سامنے پیش کیا تھا اس میں مرزا کے خرافات کے ساتھ ساتھ اس قسم کی عبارات کا بھی تذکرہ تھا:
"سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں۔ مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ پھر مقام مدح میں وَلٰكِنْ رَّسُولَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔"
اسی طرح یہ عبارت:
"بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔"
علمائے عرب نے ان عبارات کی بنا پر بھی کفر کا فتویٰ صادر کیا۔ یہ فتاویٰ "حسام الحرمین" میں چھپ چکے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امام اہلسنت عقیدہ ختم نبوت کو کس قدر اہمیت دیتے تھے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ یہ اجماعی اور قطعی عقیدہ اس قدر اہم اور نازک ہے کہ اس سلسلے میں کسی رعایت کی گنجائش نہیں ہے۔
7۔ حُسام الحرمین (1324ھ/ 1906ء):
۱۳۲۴ھ میں امام احمد رضا خاں بریلوی نے ایک استفتاء مدینہ طیبہ اور مکہ معظمہ کے علماء اہل سنت کی خدمت میں بھجوایا۔ جس میں چند عبارات کے بارے میں سوال تھا کہ یہ کفریہ ہیں یا نہیں؟ اور ان کے قائل پر بحکم شریعت کفر کا حکم ہے یا نہیں؟ ان میں سرفہرست مرزائیوں کا ذکر تھا اس استفتاء کے جواب میں حرمین شریفین کے علماء نے بالاتفاق مرزائیوں اور مرزائی نوازوں کی تکفیر کی۔
مخالفین اہل سنت کو جب امام اہلسنت کو بدنام کرنے کے لئے کوئی بھی مواد دستیاب نہیں ہوتا تو یہاں تک کہنے سے باز نہیں آتے:
"مرزا غلام قادر بیگ جو انہیں (امام احمد رضا بریلوی کو) پڑھایا کرتے تھے، نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی کے بھائی تھے۔"
گزشتہ صفحات میں امام اہلسنت کے فتاویٰ کی ایک جھلک پیش کی جا چکی ہے جو مرزائے قادیانی سے متعلق ہیں۔ ان کے باوجود ایسے گھناؤنے الزام لگانے والوں کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ انہیں امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لئے مواد دستیاب نہیں ہے۔ ورنہ جھوٹے الزامات کا سہارا ہرگز نہ لیتے۔
اس سلسلے میں چند امور قابل توجہ ہیں ابتدائی کتابیں (میزان) منشعب وغیرہ مرزاغلام قادر بیگ سے پڑھی تھیں جبکہ مخالفین یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہی ان کے استاد تھے۔
مرزا قادیانی کا بھائی مرزا غلام قادر بیگ، دنیا نگر کا معزول تھانے دارتھا جو پچپن برس کی عمر میں ۱۸۸۳ء میں فوت ہوا۔ جبکہ امام اہلسنت کے استاد مرزا غلام قادر بیگ پہلے بریلی میں رہے، پھر کلکتہ چلے گئے اور بریلی سے بذریعہ استفتاء رابطہ رکھتے رہے۔ ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری فرماتے ہیں:
"میں نے جناب مرزا صاحب مرحوم مغفور (مرزا غلام قادر بیگ) کو دیکھا تھا۔ گورا چٹا رنگ، عمر تقریباً اسی سال، داڑھی، سر کے بال ایک ایک کر کے سفید، عمامہ باندھے رہتے تھے۔ جب کبھی اعلیٰ حضرت کے پاس تشریف لاتے، اعلیٰ حضرت بہت ہی عزت وتکریم کے ساتھ پیش آتے۔ ایک زمانہ میں جناب مرزا صاحب کا قیام کلکتہ، امر تلالین
میں تھا۔ وہاں سے اکثر سوالات طلب بھیجا کرتے۔ فتاویٰ میں اکثر استفتاء ان کے ہیں۔ انہیں کے ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے رسالہ مبارکہ "تجلی الیقین بان نبینا سید المرسلین" تحریر فرمایا ہے۔
فتاویٰ رضویہ مطبوعہ مبارکپور انڈیا جلد سوم کے صفحہ ۸ پر ایک استفتاء ہے جو مرزا غلام قادر بیگ صاحب کا ۲۱ / جمادی الآخر ۱۳۱۴ھ کا بھیجا ہوا ہے۔
ان تفصیلات کے مطابق معمولی سوجھ بوجھ والا آدمی بھی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ مرزائے قادیانی کا بھائی اور امام اہلسنت کے استاد قطعاً دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ وہ قادیان کا معزول تھانیدار، یہ مدرس وعالم، وہ پچپن سال کی عمر میں مر گیا یہ اسی سال کی عمر میں حیات تھے۔ وہ ۱۳۰۰ھ / ۱۸۸۳ء میں فوت ہوا، یہ ۱۳۱۴ھ / ۱۸۹۷ء میں حیات تھے۔2